اسلام آباد:(دنیا نیوز) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف پرویز الہٰی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی مشینری بندے اٹھائے تو یہ فوجداری جرم ہوگا، جب جرم ہوگا تب توہین عدالت ہوگی، کسی کرائم کو پہلے فرض نہیں کرسکتے۔
سپریم کورٹ میں رانا ثناء اللہ کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت دورکنی بنچ نے کی، پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے وزیر داخلہ کے بیان کے ٹرانسکرپٹ پڑھ دئیے کہ رانا ثناء اللہ نے ہمارے بندے ادھر ادھر کرنے کا بیان دیا، ہمارے ایم پی اے مسعود مجید کو 40 کروڑ میں خرید کر ترکی سمگل کردیا گیا، لیگی خاتون راحیلہ نے ہمارے تین ایم پی اے سے رابطہ کیا، عطا تارڑ نے ہمارے تین ایم پی اے کو 25 کروڑ کی آفر کی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کے ایم پی اے کیساتھ راحیلہ کی بات کس تاریخ کو ہوئی، اصل بیان حلفی کدھر ہے۔ فیصل چودھری نے جواب دیا کہ اصل بیان حلفی لاہور میں ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم سوری اسکا مطلب ہے آپکو کو بھی علم نہیں، تینوں بیان حلفی پر عبارت ایک جیسی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے یکم جولائی کے حکم کی کیا خکاف ورزی ہوئی؟، عطا تارڑ اور راحیلہ کیخلاف آپکی توہین عدالت کی درخواست نہیں، پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت راحیلہ اور عطا تارڑ کیخلاف سوموٹو لے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سوموٹو لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر ریاستی مشینری سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہوگا، جب یہ جرم ہوگا توہین تب ہوگی، کسی جرم کو پہلے فرض نہیں کر سکتے۔
سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کے وکیل کو توہین عدالت سے متعلق مزید شواہد ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کردی۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کا جو الزام لگایا ہے اسکو ثابت کریں، پتہ چلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی کے نہیں، ہم یہاں پر بیٹھے ہیں اور ہماری آنکھیں بند نہیں، ہماری نظر اپنے حکم نامے اور قانون پر ہے۔
عدالت نے رانا ثناء اللہ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ہے۔