وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے چیلنجز

Published On 28 July,2022 09:39 am

لاہور: (سلمان غنی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو غیر قانونی او رغیر آئینی قرار دے کر مسلم لیگ ن کی حکومت اور حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہونگے جو مسلم لیگ ق او رتحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔ 22جولائی کو ہونے والے رن آف الیکشن میں ان کو 186جبکہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کو 179ووٹ ملے تھے مگر مسلم لیگ ق کے دس ارکان کے ووٹ نہ شمار کرنے پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی جس کے نتیجہ میں حمزہ شہباز کو عددی برتری کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

مسلم لیگ ن او ران کی اتحادی جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ تھا کہ حالیہ مقدمہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے مقابلے میں فل کورٹ بینچ بنایا جائے لیکن سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنچ بنانے کی درخواست مسترد کردی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر وزیر اعظم شہباز شریف نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کے کوئی بھی ادارہ دوسرے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا او رہم کسی بھی صورت میں آئین او رپارلیمنٹ کی عملی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کے بقول سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام او ر انتشار بڑھے گا ۔ جبکہ اس کے برعکس مریم نواز کافی جارحانہ موڈ میں نظر آئیں او رانہوں نے جہاں عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہیں حکومت پر بھی خوب برسیں ۔

چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد اب اہم سوال یہ ہی ہے کہ یہ حکومت کتنے عرصے تک چل سکے گی؟ کیونکہ عمران خان اور تحریک انصاف کا تو مطالبہ ہے کہ فوری طو رپر ملک میںنئے انتخابات کا اعلان کیا جائے ۔ مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعتوں نے ابھی تک یہ ہی فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں عمران خان کے دباؤ میں آنے کی بجائے اپنی حکومت کی مدت پوری کرنی چاہیے ۔ دوسری طرف عمران خان نے صاف کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے فوری انتخابات کا اعلان نہ کیا تو ہم ان کے خلاف مرکز میں تحریک عدم اعتماد پیش کرسکتے ہیں او ر اس کے بعد خود ہی ملک میں نئے انتخابات کا ماحول بن جائے گا ۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دھمکی دی ہے کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کی تجویز بھی زیر غور ہے ۔اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی کی پوری کوشش ہوگی کہ ملک میں فوری انتخابات نہ ہوں اور ان کو پنجاب میں ایک برس وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبہ کی حمایت کریں گے یا ان کے کہنے پر اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں گے ۔مسلم لیگ ن بھی پنجاب میں پرویز الٰہی کو آسانی سے کام نہیں کرنے دے گی ۔ یقینی طو رپر مسلم لیگ ن میں پنجاب کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ ن ایسی کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے جس سے وہ اپنی دوبارہ سیاسی پوزیشن کو بحال کرسکے ۔یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی کی باتیں چل رہی ہیں اور اگر واقعی ایسا ممکن ہوتا ہے تو یقینی طور پر مسلم لیگ ن کی سیاست میں ایک نئی تیزی دیکھنے کو مل سکتی ہے ۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پنجاب میں جو سیاسی لڑائی ہے اس کھیل میں مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلز پارٹی کہاں تک کھڑی ہوگی اور کیا وہ اس مزاحمتی سیاست کا حصہ بنے گی؟اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ملک نئے انتخابات کی طرف بڑھے گا یا یہ حکومتی نظام اپنی سیاسی مدت پوری کرسکے گا ؟جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ملک کو بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے نکالنے کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب مکمل اداروں کو متنازعہ بنایا جائے گا تو پھر راستہ کیسے بنے گا؟ لہٰذا انتخابات سے قبل رولز آف گیمز طے ہونا ضروری ہیں اور یہ مل بیٹھ کر ہی ممکن بن سکتا ہے۔
 

Advertisement