اسلام آباد: (محمد عادل) عمران خان شہبازگل کو بچانے کی کوشش میں خود پھنستے جارہے ہیں،عمران خان بولتے ہیں تو نتائج کی پرواہ کئے بغیر بولتے ہی چلے جاتے ہیں،گو کہ دھمکی آمیز رویہ نیا نہیں 2014ء سے مسلسل اسی طرح کا لب ولہجہ ہے ۔عمران خان کی جارحانہ سیاست نے جہاں انہیں مقبولیت دی ان کے بیانیہ کو عوام میں پذیرائی ملی ،اقتدار ملا،وہیں اقتدار سے بھی باہر لاکھڑا کیا۔ اب حالات بدل چکے ہیں،اب یہی لفظوں کی کاٹ ان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ پہلے دھمکی آمیز روئیے کی حوصلہ آفزائی کی جاتی تھی اب ناراضی کا اظہار کیا جارہاہے ،بھرپور عوامی حمایت تو ہے لیکن اب اقتدار کے جانے والے راستے پر رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں،کچھ تو شاید عبور ہوجائیں لیکن ہوسکتا ہے ساری نہ ہو پائیں۔ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ ریفرنس کا اور عدالتوں میں توہین عدالت اور دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا ہے ۔چند دنوں میںنیب بھی ان ایکشن ہوگا ،چیئرمین نیب نے بھی مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر کیس میں پیش رفت کا عندیہ دیا ہے ۔توہین عدالت کی کارروائی میں 31 اگست کو طلبی ہے۔
عمران خان کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ماضی قریب میں ن لیگ کے تین رہنما اسی طرح کے بیانات پر نااہل ہوچکے ہیں ،نہال ہاشمی کو تو جیل بھی جانا پڑا تھا ۔عمران خان اداروں کومضبوط کرنے کی بڑی بڑی باتیں کرتیں ہیں لیکن خود عملی طور پر اس کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔دوسروں پر تنقید کرتے ہیں خود اپنے خلاف ایکشن ہو تو ایف آئی اے ،الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر لفظی حملے کرتے ہیں۔ ادارہ مخالف بیانیہ ایک دو شخصیات تک رہا تو قابل برداشت رہا لیکن پورے ادارے کے خلاف بیانیہ قابل برداشت نہیں۔عمران خان کا رویہ انہیں بند گلی کی طرف لے جارہا ہے اس وقت عمران خان کو مخالفین سے نہیں اپنے آپ سے خطرہ ہے ۔ان کے چاہنے والے ووٹ اور سڑکوں پر نکل کر محبت کا اظہار تو خوب کرتے ہیں لیکن اگر فیصلہ ہوا کہ سختی سے نمٹاجائیگا تو پھر شاید بڑی تعداد حمایت میں نہ نکل پائے۔
غصہ عقل کا دشمن ہوتا ہے ،عمران خان کو اندازہ نہیں وہ خود انہیں آؤٹ کرنے والوں کی مشکل آسان کررہے ہیں اور مائنس ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ان کے آس پاس کچھ کرداروں کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ مائنس ہونگے تو ان کا چانس بنے گا۔عمران خان کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے ،عوامی طاقت سنبھال رکھیں ،تحمل کا مظاہرہ کریں ،ووٹ سے اقتدار کو جانے والے راستے کھل سکتے ہیں۔ ملک بنے75 سال ہوگئے، سیاستدانوں نے سبق نہیں سیکھالیکن اب سیاست میں رولز آف گیم طے کرنا ہونگے۔ اقتدار کیلئے عوامی طاقت پر بھروسہ کرنا ہوگا لیکن اس کیلئے سیاستدانوں کو پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ عمران خان کی مقدمات میں گرفتاری کے خدشات پر تحریک انصاف کے کارکنو ں میں اشتعال ہے ۔رانا ثنا اللہ بار بار عمران خان کی گرفتاری کے دعوے تو کررہے ہیں لیکن وہ بھی جانتے ہیں یہ اتنا آسان نہیں ۔ اتحادی رہنماؤں میں بھی اس پر اختلاف ہیں، حکومت کو موجودہ حالات میں مزید اشتعال نہیں پھیلانا چاہئے۔
ملک کی سیاسی صورتحال معاشی استحکام کے بھی آڑے آرہی ہے ۔قومی ڈائیلاگ اور چارٹر آف اکنامی صرف باتوں تک ہی محدود ہے، عملی طور پر حکومت کی طرف سے ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ افراتفری کے ماحول میںسرمایہ کار بھی تذبذب کا شکارہیں۔ اس تمام صورتحال سے قطع نظر شہبازشریف حکومت بھی عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے، عوام کو کسی قسم کا ریلیف فراہم نہیں کیا جارہا۔ آئی ایم ایف پروگرام معاشی استحکام لائے گا یا نہیں لیکن اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔ آرڈنینس کے ذریعے اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں ،ہزاروں اشیاء پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے، حکومتی اقدامات سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح 42 فیصد سے بھی زیادہ پر پہنچ چکی ہے ۔ مہنگا ئی کی لہر نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے لیکن متوسط اور کم آمدن والے خاندان زیادہ مشکل کا شکار ہیں۔ سخت معاشی فیصلوں سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ بجلی کے بلوں نے چیخیں نکلوادی ہیں،اب لوگ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کو معمولی ریلیف سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا، موجودہ سیاسی ماحول میں عوام کا غم وغصہ حکمرانوں کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔پنجاب کے ضمنی الیکشن میں عوام اپنا ردعمل دے چکی ہے، اب آنے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور حکومت اور اتحادی جماعتوں کو اس کی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔حکومت عوام کو کوئی ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والے وقت اور حکومتی اقدامات سے ہی پتا چلے گا۔