اسلام آباد: (دنیا نیوز) صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ اگرچہ صدر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری نہیں موجودہ سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے کردار ادا کروں تاہم اگر تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہو جائیں تو وہ رضاکارانہ طور پر سٹیک ہولڈرز کے درمیان ملک کو درپیش اہم سوالات جن میں اگلے انتخابات کی تاریخ، اتفاق رائے پر مبنی اقتصادی چارٹر اور اہم تقرریوں کو آگے بڑھانے کا طریقہ شامل ہے، پر ثالثی کر سکتے ہیں۔ عدلیہ اور فوج سمیت تمام اداروں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران کیا۔
خیبرپختونخوا، جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے بارے میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے تباہی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ پاکستان عالمی کاربن کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم کا حصہ دار ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے بڑا حصہ دار ہونے کے ناطے متناسب طور پر ریسکیو اور ریلیف آپریشنز، تباہ شدہ مواصلاتی نظام ، مکانات ، املاک، مویشیوں اور کھڑی فصلوں کا لوگوں کو معاوضہ ادا کرنا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تباہی نے ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا جبکہ 350 سے زائد بچوں سمیت 1,100 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 1,600 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ، 10 لاکھ سے زیادہ مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو ئے ، گائوں کے گائوں اجڑ گئے ، 735,000 سے زیادہ مویشی ہلاک ہو ئے ، 20 لاکھ ایکڑ فصلیں زیرآب آئیں اور مواصلاتی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔
عارف علوی نے ملک میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے، ایندھن اور توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف منتقل ہونے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کیلئے ڈیلے ایکشن اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کیلئے ملک گیر مہم شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ صدر کی حیثیت سے یہ ان کی آئینی ذمہ داری نہیں کہ وہ موجودہ سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے کوئی کردار ادا کریں تاہم اگر تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہو جائیں تو وہ رضاکارانہ طور پر سٹیک ہولڈرز کے درمیان ملک کو درپیش اہم سوالات ، جن میں اگلے انتخابات کی تاریخ، اتفاق رائے پر مبنی اقتصادی چارٹر اور اہم تقرریوں کو آگے بڑھانے کا طریقہ شامل ہے، پر ثالثی کر سکتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں صدر مملکت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عدلیہ اور فوج سمیت تمام اداروں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ایسے تبصرے عظیم تر قومی مفاد میں نہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کوئی بھی تبصرہ، بیانیہ یا تجزیہ جس سے اداروں کے اندر یا پاکستان کے اداروں اور عوام کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کا اندیشہ ہو، ہمارے قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں، صائب الرائے افراد، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا پرسنز پر زور دیا کہ وہ اداروں پر گفتگو یا تبصرہ کرتے وقت آئین کے آرٹیکل 19 اور متعلقہ قوانین اور ضوابط کی حدود میں رہیں۔ تقریباً 90 فیصد سوشل میڈیا عوام کو علم، معلومات، تعلیم اور تفریح فراہم کر رہا ہے جو کہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ کچھ افراد یا گروہ جو بعض سیاسی جماعتوں یا رہنما کے پیروکار ہیں وہ سیاسی جماعت یا رہنما کے علم یا رضامندی کے بغیر سوشل میڈیا پر ٹرول کرتے ہیں اور بعض افراد یا اداروں کے خلاف توہین آمیز اور تضحیک آمیز رجحانات شروع کرتے ہیں لیکن ایسے رجحانات بغیر کسی ثبوت کےسیاسی جماعت یا شخصیت سے منسوب کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے غیر تصدیق شدہ الزامات بھی موجودہ سیاسی تقسیم میں اضافہ کرتے ہیں جس سے گریز کرنا چاہئے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات چیت کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان تمام ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام، دیگر ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، عدم جارحیت اور تنازعات کے پرامن حل پر پختہ یقین رکھتا ہے اور اس کے بدلے میں دوسرے ممالک سے بھی یہی رویہ اپنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کے منفرد سٹریٹجک اور جیو اکنامک محل وقوع کی وجہ سے اسے علاقائی اور عالمی طاقتوں نے ہمیشہ اہم سمجھا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قومی مفاد ، ملک کی خودمختاری اور پاکستانی عوام کے وقار کو مقدم رکھتے ہوئے تمام ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں ۔
ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان کی توثیق کی اور افغانستان میں امریکی انسداد ِ دہشت گردی ڈرون آپریشن میں پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال سے متعلق افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں، جیسا کہ خود افغان وزیر نے اعتراف کیا، ایسے فرضی الزامات انتہائی افسوسناک ہیں ، پاکستان تمام ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر یقین رکھتا ہے ۔