اسلام آباد: ( دنیا نیوز ) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اللہ والا چوک میں فائرنگ کے واقعہ اور سوچ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی صاف اور شفاف تحقیقات کے لئے سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جائے، فائرنگ کرنے والے شخص کی گرفتاری، اعترافی بیان کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے وزیراعظم، مجھ پر اور ادارے پر الزامات بلا جواز ہیں، سکیورٹی ناقص ہونے اور ملزم کا اعترافی بیان لیک ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی ہونا چاہئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ آج شام کو اللہ والا چوک میں پیش آنے والے واقعہ میں عمران خان، فیصل جاوید سمیت پانچ لوگ زخمی اور معظم نامی شخص جاں بحق ہوا ہے، ہم اس واقعہ کی پرزور مذمت اور دلی اظہار افسوس کرتے ہیں، اگر ہر وقت تشدد کی فصل بوئیں گے، مارنے کی باتیں کریں گے تو تشدد اور نفرت کا بیانیہ بار آور ہوگا، آپ یہ مت سمجھیں کہ اس کا نشانہ صرف مخالف بنیں گے بلکہ آپ خود بھی اسکا نشانہ بنیں گے، ایک ادارہ جو سیاسی طور پر آپ کے کام نہیں آرہا، دوبارہ برسراقتدار لانے سےانکار کیا اور آپ کی سیاسی خواہشات کو پورا کرنے سے معذرت کر دی ہے تو ہر معاملے میں اسے کیوں گھسیٹ رہے ہیں، وہ ادارہ اس ملک کی بقا، دفاع، سرحدوں کا محافظ ہے، اس ادارے کے خلاف ایسی مہم جوئی کر رہے ہیں جو دشمن ملک کو پسند آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں پریس کانفرنس یا تقاریر کی حدتک کسی بات کا جواب دیا جاتا ہے، ہم تو اس میں بھی چاہتے ہیں کہ شائستگی، عزت و احترام اور سیاسی راواداری ہو ، بدقسمتی سے 2014 سے ایک ایسی روش اپنائی گئی ہے کہ سیاسی احترام، رواداری، دوسروں کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے دوسرے کو بے عزت کرنے پر زیادہ زور رہے، یہ چیزیں سیاسی بیانات اور تقاریر کی حد تک رہیں تو نامناسب ہیں مگر قابل برداشت ٹھہرتی ہیں لیکن جب تشدد شامل ہو جائے تو ایسے ذہن اور سوچ کی ہمیشہ ہم نے مذمت اور مخالفت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ،مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سمیت ہم سب نے اس واقعہ پر دلی افسوس کا اظہار کیا ہے، اس واقعہ میں پی ٹی آئی کےاس کارکن کو جس نے حملہ آور کو رنگے ہاتھوں پکڑ ا اور پولیس نے اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا اس پر اس کارکن اور پولیس کی کارروائی کی تعریف کرتا ہوں، ایسا نہ ہوتا تو بعض لوگوں کو سیاسی دکان چمکانے کے مواقع میسر آتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے حکومت پنجاب سے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرنے کا حکم دیا ہے جس پر وزارت داخلہ نے تحریری طور پر حکومت پنجاب سے جواب طلب کیا ہے، وزارت داخلہ نے حکومت پنجاب کو یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کے لئے جو بھی مدد درکار ہو گی وفاق اس کے لئے تیار ہے، وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعہ کی انکوائری کے لئے سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جائے تا کہ اس میں ابتدائی مراحل سے ہی تفتیش کا عمل شفاف اور مستند ہو اور اصل صورتحال لوگوں کے سامنے لائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ تشد د کی ہر صورت اور شکل کی ہم مذمت کرتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن نے 2018 میں مذہبی تعصب کا شکار رہی ہے، ہمارے اوپر فتوی جاری ہوتے رہے ہیں، قائد محمد نواز شریف پر حملے بھی ہوئے، ہم نے ہمیشہ درگذر اور معافی سے کام لیا ہے اس کی حالیہ مثال مسجد نبوی ﷺ جیسے ایسے مقام جہاں اونچی آواز میں بات کرنا بھی حد آداب ٹھہرتا ہے وہاں پر سیاسی جماعت کی قیادت کے کہنے پر قابل اعتراض رویہ اپنایا گیا، نہ کسی خاتون کی عزت کو نہ ہی ملک کی عزت کو روا رکھا گیا، ایسے جملے کسے گئے اور غنڈا گردی کی گئی، سعودی حکومت نے ان لوگوں کو گرفتار کیا اور مثالی سزائیں دیں، وزیراعظم اس دورے کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب گئے تو ان کی بھی معافی سے کے لئے شہزادہ محمد بن سلیمان سے گذارش کر کے قید سے رہائی دلوائی، جن کے کہنے پر قابل اعتراض عمل کیا تھا انہوں نے دوبارہ پیچھے نہیں دیکھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آج جب یہ واقعہ ہوا تو ویڈیو سب کے سامنے ہے، جنہوں نے چھلانگیں لگائیں اور دوڑ گئے انہوں نے واپس آکر الزامات لگانے شروع کردیئے، شیریں مزاری نے کس طرح اس واقعہ کا الزام وزیراعظم، میرے اور ایک ایک ادارے پر لگایا، فواد چودھری نے گھروں پر حملے کے لئے اکسایا تو انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کا بھی گھر زمین کے اوپر ہے، اس آگ پر آپ بھی جلیں گے، اگر دوسروں کے گھروں پر حملے کریں گے تو آپ کے گھر بھی نہیں بچیں گے، اسد عمر نے عمران خان کی جانب سے بیان دیا کہ اس واقعہ کی ذمہ داری وزیر داخلہ اور ایک ادارے پر عائد ہوتی ہے، حملہ آور کے اعترافی بیان کے بعد ایسے بیانات بلا جواز ہیں، پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اور گجرات کا تھانہ ہے، وہ بات جو پہلے موقف کے طور پر سامنے آئی ہے وہ بات یہاں دوبارہ نہیں دہراتا ہوں، جب قوم کے جوانوں کو گمراہ کریں گے تو اس میں کچھ گمراہ آپ کے اپنے خلاف بھی ہوسکتا ہے، اس لئے بغیر کسی تفتیش اور شواہد کے اس واقعہ کو اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی، اس سوچ کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والے معظم کے بچے بھی موجود تھے، اس شخص کو اس دھکم پیل سے سینے میں گولی لگی، اس کے قتل کو بھی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، ہم نے اپنا حساب کر لیا ہے، آپ بھی حساب کرلیں کہ اس گھٹیا پیغام پر کتنے لوگ باہر نکلے ہیں، اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، اگر اس واقعہ میں کسی قسم کی کوتاہی سامنے آجائے کہ سکیورٹی کا انتظام مناسب نہیں تھا، اقدامات لینے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری پنجاب پر ہی عائد ہوتی ہے، ملزم کے ابتدائی بیان کی بہت اہمیت ہوتی ہے، وہ ویڈیو ریکارڈ ہونی چاہیے تھی، پولیس نے درست عمل کیا ہے، وہ میڈیا تک نہیں جانی چاہیے تھی، شرم آنی چاہیے کہ اس پر وزیراعظم اور مجھ سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں، سکیورٹی ناقص ہونے اور ملزم کا اعترافی بیان لیک ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی ہونا چاہیے، اگر ہر وقت تشد کی فصل بوئیں گے، ہر وقت مارنے کی باتیں کریں گے تو تشدد اور نفرت کا بیانیہ بار آور ہوگا تو آپ یہ مت سمجھیں کہ اس کا نشانہ صرف مخالف نہیں آپ خود بھی اسکا نشانہ بنیں گے، آئین اور قانون کاراستہ اختیار کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ادارہ جو سیاسی طور پر آپ کے کام نہیں آرہا، نیپی تبدیل کرنے، دوبارہ برسراقتدار لانے پر انکار کردیا، سیاسی خواہشات کو پورا کرنے سے معذرت کر دی یہ تو سوچیں کہ وہ ادارہ اس ملک کی بقا، دفاع، سرحدوں کا محافظ ہے، اس ادارے کے خلاف ایسی مہم جوئی کر رہے ہیں جو دشمن ملک کو پسند آرہی ہیں، ہر معاملے میں اس ادارے کو گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں، آپ کی یہ کوشش دوبارہ ناکام ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اس واقعہ کی جو مرضی ہے ایف آئی آر کٹوائیں، حقائق اور شواہد ہی ثابت کرتے ہیں، حملہ آور کی ویڈیو کو کہاں لیکر جائیں گے، اس ملزم کو پولیس کی مدد سے موقع سے گرفتار کیا گیا ہے، یہ واقعہ ہی خونی لانگ مارچ تھا، روزانہ کسی نہ کسی کی جان لی ہے، جو اس واقعہ میں زخمی ہوئے ان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں، فواد چودھری نے جب یہ کہا کہ نکلیں اور بدلہ لیں، یہ سوچ بہت ہی خطرناک ہے، اس سوچ کو ختم کرنے کے لئے قومی سطح پر تمام طبقات کو یکجا ہونا چاہیے، سیاسی معاملات کا ہمیشہ مل بیٹھ کر ہی حل نکلتا ہے، سیاسی کارکن کے طور پر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حکومت اور اپوزیشن کو ہر معاملے پر مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے لیکن اس کا کیا حل ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں کیا آئین اور جمہوری میں اس کی کوئی گنجائش ہے، عمران خان کا بیانیہ تباہی کا بیانیہ ہے،عدلیہ اور تمام اداورں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے وہ تباہی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی ایسے اجتماعات جہاں بہت زیادہ لوگ ہوں تو کوئی بھی متشدد ذہن فائدہ اٹھا سکتا ہے ، جو ملزم پکڑا گیا ہے اس کا بھی بیک گراؤنڈ سامنے آجائے گا، عمران خان کی جان کو خطرہ ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے پوری قوم کو خطرہ ہے، سکیورٹی ادارے پہلے بھی فول پروف سکیورٹی دے رہے ہیں، ان کی سکیورٹی کے لئے فکر مند بھی ہیں، آنے والے دنوں میں جو اقدامات لینے ہوئے وہ لیں گے، اس واقعہ میں جو برسٹ فائر ہوا اور بعد میں دو فائر ہوئے، فائر جس شخص کو لگا، حملہ آور کی آڈیو اور ویڈیو سامنے آچکی ہے اس کے بعد سب کے ریکارڈ پر آچکا ہے، انڈین میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے کا جواب وزارت اطلاعات بھرپور انداز سے دے رہی ہے، پاکستانی قوم بھی حکومت کے موقف کے ساتھ ہے۔
عمران خان کے قافلے پر فائرنگ، وفاق نے پنجاب حکومت کو جے آئی ٹی بنانے کا مراسلہ لکھ دیا
وزیر آباد میں عمران خان کے قافلے پر فائرنگ کے واقعے کے بعد وفاق نے پنجاب حکومت کو جے آئی ٹی بنانے کا مراسلہ لکھ دیا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی میں سینیئر پولیس افسران اور خفیہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا جائے تاکہ واقعے کی شفاف انکوائری عمل میں لائی جا سکے۔
وزارت داخلہ نے مراسلہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو ارسال کر دیا ہے۔