اسلام آباد: (دنیا نیوز) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بین الاقوامی تعلقات میں تباہ کن فلسفوں اور نظریات کو مکمل امن کے فلسفے سے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی نظام کو قوانین، اخلاقیات اور اقدار پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ دنیا کو سب کے لیے ایک بہتر جگہ بنایا جاسکے، سائبر وارفیئر کی بے پناہ طاقت کو ہوشیاری سے انسانیت کی تباہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں ”مارگلہ ڈائیلاگ“ کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا۔ سیشن میں سفارت کاروں، غیر ملکی شخصیات، ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ باہمی طور پر یقینی تباہی، ہیومن وارفیئر اور سرد جنگ کی ذہنیت جیسے نظریات کو ختم کرکے ان کی جگہ کامل امن کے فلسفے کو لانا چاہیے تاکہ جنگ کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ تباہ کن فلسفوں اور نظریات کو مکمل امن کے فلسفے سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جہاں جنگ کا سہارا لینا کوئی آپشن نہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب تمام قوموں، ملکوں اور وہاں رہنے والے لوگوں کے ساتھ بلا تفریق رنگ و نسل اور زبان ان سے عزت، وقار اور احترام کا سلوک کیا جائے۔
عارف علوی نے کہا کہ ویٹو پاور کی صورت میں کچھ قوموں کو ترجیحی حیثیت دینے کے اصول کی نئے ورلڈ آرڈر میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے جو تجربے کی بنیاد پر کم طاقت ور قوموں کو بدحالی اور جنگ کے غلط استعمال کی صلاحیت رکھتی ہو۔ عالمی طاقتیں باہمی یقینی تباہی، جنگ اور سرد جنگ کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں جہاں ہر قوم قیمتی وسائل لگا کر پوری دنیا کو کئی گنا تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مہلک اور خطرناک ہتھیار تیار کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپر پاورز نے مہلک اور طاقتور ہتھیاروں کے نظام بنانے پر کھربوں ڈالر خرچ کیے، اس بھاری رقم کا ایک حصہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے اور دنیا سے بھوک اور بدحالی کو ختم کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ دنیا جنگ کے ایک اور مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جو اس سے بھی زیادہ تباہ کن، مہلک اور خطرناک ہے، سائبر وارفیئر کی صلاحیتیں انتہائی تیز رفتاری سے تیار کی جارہی ہیں اور اسے کسی ملک کے مواصلاتی نیٹ ورک کو بے اثر کرنے، اس کے دفاعی نظام کو غیر فعال بنانے، صحت سمیت دیگر خدمات کی فراہمی میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو اسے مکمل طور پر مفلوج کرسکتا ہے۔ سائبر وارفیئر کی بے پناہ طاقت کو ہوشیاری سے انسانیت کی تباہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا سے ”فیک نیوز“ پھیل رہی ہیں جس کے نتیجے میں تشدد کے ساتھ ساتھ ممالک اور معاشروں میں غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں جس کا مقابلہ خود سیکھنے اور تعلیم کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ اقوام کے داخلی نظام کی بنیاد جمہوری اقدار پر ہونی چاہیے، مذاکرات، مشاورت اور غور و خوض اور اتفاق رائے پیدا کرنے اور آگے بڑھنے کا راستہ طے کرنے کے لیے متعلقہ فریقوں کو شامل کرنا چاہیے جبکہ اقوام کے درمیان دوطرفہ تعلقات تنازعات اور اختلافات کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
صدر نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام کو درپیش بڑے مسائل میں گلوبل وارمنگ اور گرین ہائوس گیسوں کا اخراج شامل ہے جو بہت سے کمزور ممالک کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور مختلف خطوں میں لوگوں کی زندگیوں اور معاش پر منفی اثر مرتب کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے اپنے وسائل کو اکٹھا کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی ان ممالک میں منتقل کی جانی چاہیے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، ہالینڈ جو کہ پاکستان سے 19 گنا چھوٹا ملک ہے لیکن وہ خوراک برآمد کرنے والے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ پیداوار والی خوراک کی مصنوعات، خشک سالی سے بچنے والی فصلوں، پانی کے تحفظ، عمودی کاشتکاری اور اس طرح کی دیگر جدید طریقوں میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ بھی شیئر کی جانی چاہیے تاکہ انہیں بھوک، غذائیت کی کمی، سٹنٹنگ اور غذائی عدم تحفظ کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔
قبل ازیں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدرسفیر ڈاکٹر رضا محمد نے صدر مملکت کا خیرمقدم کیا اور شرکاءکو قومی سلامتی، جیوسٹریٹیجی اور بین الاقوامی تعلقات سے متعلق مختلف موضوعات پر ہونے والے مباحثے سے آگاہ کیا۔