لاہور: (ویب ڈیسک) جعفر ایکسپریس کا سفر پاکستان کے سب سے دلچسپ مگر خطرناک اور مشکل ترین ریل راستوں میں ہوتا ہے۔
یہ سبی اور کوئٹہ کے درمیان 70 کلومیٹر طویل درہ بولان کے مشکل دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتی ہے، اس دوران سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر بنائی گئی 17 سرنگوں اور ندی، دریا اور برساتی نالوں پر بنائے گئے 350 پلوں کو عبور کرتی ہے۔
درہ بولان میں اس ٹرین پر سفر کرنے والوں کو خوبصورت اور دلکش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، بیچ میں جب درہ بہت تنگ ہوجاتا ہے تو سفر اور بھی مسحور کن ہو جاتا ہے، دریائے بولان اور سڑک کے ساتھ ساتھ ٹرین سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔
سطح سمندر سے صرف ساڑھے 400 فٹ بلند سبی کے میدانوں سے جب ٹرین بولان کی طرف جاتی ہے تو بلندی شروع ہو جاتی ہے اور صرف 100 کلومیٹر کے اندر کولپور کے مقام پر تقریباً ساڑھے پانچ فٹ کی بلندی طے کرتی ہے۔
اس خطرناک راستے پر ٹرین کی رفتار 30 سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود رکھی جاتی ہے تاکہ کسی بھی حادثے سے بچا جا سکے، چڑھائی اور واپسی میں ڈھلوانی ٹریک پر ٹرین کے بے قابو ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور یہاں ماضی میں کئی بار حادثات بھی پیش آ چکے ہیں۔
2015 میں درہ بولان میں آب گم کے مقام پر تیز رفتاری کی وجہ سے جعفر ایکسپریس بریک فیل ہونے سے الٹ گئی تو 20 سے زائد افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔
یہاں کئی مقامات پر اضافی لائنیں بھی بچھائی گئی ہیں جنہیں جہنم لائن کہا جاتا ہے جس پر بے قابو ہونے کی صورت میں ٹرین چلائی جاتی ہے، چند دہائی قبل ایک بار ٹرین اس اضافی لائن سے بھی گزر کر نیچے گر گئی تھی، اس لیے اب اسے جہنم لائن بھی کہا جاتا ہے۔
اس مشکل راستے پر یہ ریلوے لائن برطانوی راج کے دوران فوجی و تجارتی مقاصد کے لیے 1880 کی دہائی میں بچھائی گئی تھی اور آج بھی اس لائن کو انجینئرنگ کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
جعفر ایکسپریس نہ صرف بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے بلکہ گلگت اور کشمیر کے مسافر بھی اسے بلوچستان آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بلوچستان میں یہ ٹرین زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ افراد استعمال کرتے ہیں جو رشتہ داروں سے ملنے، کاروبار یا روزگار کے لیے یہاں آتے ہیں۔
جعفر ایکسپریس ملتان، لاہور ، راولپنڈی اور پشاور جانے کے لیے لمبے روٹ سے گزر کر جاتی ہے، اس کے مقابلے میں سڑک کا فاصلہ کم اور سفر تیز رفتار ہوتا ہے، اس لیے مقامی افراد سڑک کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگرچہ جعفر ایکسپریس کا سفر دیگر ذرائع نقل و حمل کے مقابلے میں لمبا ہے لیکن یہ سستی اور نسبتاً محفوظ سروس سمجھی جاتی تھی، خاص طور پر حالیہ دنوں میں جب قومی شاہراہوں پر بے امنی، احتجاج اور عسکریت پسندوں کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات ہو چکے تھے۔
بولان میں ہونے والے حالیہ حملے اور اس میں درجنوں افراد کی ہلاکت نے سفر کے اس ذریعے کو بھی خوف کی علامت بنا دیا ہے، جعفر ایکسپریس پاکستان کی تاریخ کی پہلی ٹرین ہے جسے ہائی جیک کیا گیا۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کا یہ پہلا موقع نہیں، نومبر 2024 میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے میں جعفر ایکسپریس کے 26 مسافر ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 2014 میں سبی سٹیشن پر کھڑی جعفر ایکسپریس پر حملے میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جعفر ایکسپریس پر تازہ حملہ درہ بولان میں جس پنیر سٹیشن کے قریب کیا گیا، یہاں چند سال پہلے بھی جعفر ایکسپریس کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا جس میں ایک خاتون سمیت پانچ مسافر ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری شورش کے دوران سب سے زیادہ جس مسافر ٹرین پر حملے ہوئے ہیں، وہ جعفرایکسپریس ہے، بظاہر اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اس میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یا چھٹیوں پر گھر جانے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکار سفر کرتے ہیں جو بلوچ عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2005 سے سنہ 2015 کے دوران ٹرینوں ، پٹریوں اور ریلوے تنصیبات پر 173 حملے ہوئے جن میں سے بیشتر میں جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا اور زیادہ تر حملے درہ بولان میں کیے گئے۔