اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ استعفوں کا اعلان سیاسی بھڑک ہے، حقیقی آزادی کا نعرہ محض ڈھونگ ہے، وفاقی حکومت گرانے کی باتیں کرنے والے اپنی ہی دو حکومتیں گرانے کا اعلان کر گئے، یہ استعفے دیں یا کچھ اور کریں، ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، عمران خان اپنی سیاست بچانے کے لئے قائداعظم کے فرمان استعمال نہ کریں، کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ آئینی اداروں کو آئین شکنی پر مجبور کرو؟ کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ فارن فنڈنگ کرو؟ کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ توشہ خانہ میں ڈاکے ڈالو؟، کیا قائد اعظم نے کہا تھا کہ توشہ خانہ کی خانہ کعبہ کے عکس والی گھڑی بیچ دو؟ کیا قائداعظم نے یہ کہا تھا کہ آرمی چیف کو بند کمرے میں بٹھا کر تاحیات توسیع کی دعوت دی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے آغاز میں وزیراعظم نے اعظم نذیر تارڑ کے بطور وزیرقانون خدمات کو سراہا۔
وفاقی کابینہ اراکین اعظم نذیر تارڑ کے گھر بھی گئے اور انہیں وزیراعظم کی جانب سے استعفیٰ منظور نہ کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا، اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعظم کی ہدایت پر دوبارہ وزارت کا قلمبندان سنبھالا اور وفاقی کابینہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کوئٹہ میں خودکش حملے کی شدید مذمت کی گئی، شہدا کے لئے فاتحہ خوانی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی گئی، پاکستان میں جس طرح پولیو مرض کا خاتمہ کیا گیا وہ لائق تحسین ہے، وفاقی کابینہ نے پولیو کے خاتمے کے لئے قومی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وزارت خوراک کی جانب سے ملک میں گندم کی صورتحال کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ملکی ضرورت پوری کرنے کے لئے گندم کی وافر مقدار موجود ہے، گذشتہ سال اور موجودہ سال کا موازنہ کیا جائے تو گندم کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں، موجودہ سال میں گندم کی مجموعی ضرورت 30.79 ملین میٹرک ٹن ہے، موجودہ ذخائر دو فیصد زائد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں موجودہ سیلاب کے باوجود موثر حکمت عملی کی وجہ سے ذخائر وافر ہیں اور ایسے انتظامات کیے ہیں کہ ملک میں کسی قسم کی غذائی قلت نہ ہو۔
وفاقی کابینہ نے وزیر خوراک اور ان کی ٹیم کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے زیر استعمال 2 عمارتوں کے معاملے پربحث ہوئی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ 2010 میں اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر دونوں عمارتوں کی تزین و آرائش کی منظوری دی گئی تھی، ابھی تک ایک عمارت کی تزین و آرائش کا 60 فیصد کام مکمل نہیں ہوا جبکہ ایک عمارت کا کام مکمل ہوچکا ہے ، 2018 میں اس عمارت کا سفارتی سٹیٹس ختم کر دیا تھا ، اب یہ ایک پرائیوٹ جائیداد ہے اس پر ٹیکس رجیم بھی کم ہوگئی ، 2019 سے لیکر اب تک8لاکھ 19ہزار ڈالر کا ٹیکس ادا کر چکے ہیں ، بروقت فیصلے نہ ہونے سے ہم جائیداد استعمال نہیں کررہے لیکن ٹیکس ادا کررہے ہیں، تین ماہ میں ایک لاکھ کا ٹیکس مزید بڑھ جائے گا۔2020 میں ایک وزرا کمیٹی بنائی تھی ، کمیٹی نے ورکنگ کر کے 45 لاکھ امریکی ڈالر اس کی قیمت لگوائی تھی ، امریکی ٹیکس شعبے نے یہ کہا تھا نہ اب فروخت کریں نہ استعمال کریں گے اب اس کی نیلامی کرنا پڑے گی، اب تک اس عمارت سے 13 لاکھ ڈالر وصول کرنے کا کہا گیا ہے، کہا گیا کہ اگر پاکستان نے نیلام نہ کیا تو امریکی حکومت اس عمارت کو نیلام کر دے گی، اب 68 ملین ڈالر کی بڈ ملی ہے۔ اس بڈنگ کے عمل کو جو صاف او رشفاف طریقے سے چل رہا ہے، وزارت خارجہ کی سمری پر وفاقی کابینہ نے ان بڈنگز کو شفاف عمل کے ذریعے فروخت کرنے کی منظوری دیدی۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ قائداعظم یونیورسٹی اور بہارکہو بائی پاس کا تنازعہ چل رہا ہے، ڈاکٹر عزیز الرحمان اور دیگر کی پٹیشن بھی تھی اس پر عدالت کا ابتدائی حکم بھی آیا ہے جس میں سٹیٹ کو کہا گیا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرے ، عدالت نے سردار ایاز صادق ، میرے علاوہ قمر الزمان کائرہ اور سیکرٹری داخلہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی شریک ہیں، اس کمیٹی نے دو اجلاس کیے جس میں دونوں فریقین اور پٹیشنرز کو سنا، کچھ مطالبات بھی سامنے آئے، حکومت کی ترجیح تھی کہ شفاف طریقے سے کسی حتمی نتیجے تک پہنچے، اس بارے ایک ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے جس میں دی گئی سفارشات کی کابینہ نے منظوری دی ہے۔
سفارشات میں کہا گیا ہے بارہ کہو بائی پاس کے لئے قائداعظم یونیورسٹی کا راستہ لیا جائے گا تو بائی پاس سے قائداعظم یونیورسٹی کو براہ راست رسائی دی جائے یہ یونیورسٹی کا بڑا مطالبہ تھا، سی ڈی اے کی ذمہ داری ہوگی کہ قائداعظم یونیورسٹی کی لینڈ لیز جو کہ 33 سال بعد توسیع کرنا ہے اس کے انتظامات کرے، قائداعظم یونیورسٹی کے لیز بقایاجات کا معاملہ حل کرے قائداعظم یونیورسٹی کو سہولت دی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فیفا ورلڈ کپ معاملے پر پی ٹی وی سپورٹس کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہوا ہے، اس معاملے پر تحقیقات مکمل ہوچکی ہے، اب بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پی ٹی وی کو باقی میچز کے رائٹس مل جائیں، ایم ڈی پی ٹی وی اور سپورٹس ٹیم اس پر کام کررہی ہے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ پی ٹی آئی نے عمران خان کی قیادت میں لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد شہدا کے بعد ایک مہم شروع ہوئی،غلیظ ذہنیت او ر مہم کے بعد ان سے او رکیا توقع کی جاسکتی ہے، افواج پاکستان کے سربراہ عمران خان نے براہ راست سیاسی میں مداخلت کا کہا اور پھر کہا کہ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم تحریک عدم اعتماد کو روک سکتے تھے۔
آج عمران خا ن قائداعظم کے فرمان سے نئے آرمی چیف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ریاست اور لوگوں کے درمیان جو اعتماد کی کمی ہے وہ ٹھیک کریں گے، اگر اعتماد کی کمی یہ ہے کہ آرمی چیف کو بند کمرے میں تاحیات توسیع کی آفر کریں، افواج پاکستان کے افسران، شہدا کے خلاف مہم چلائیں، آرمی چیف کو سیاسی میں مداخلت کے لئے باقاعدہ دعوت دیں، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، گورنرز کے ذریعے کے ذریعے آئین شکنی کرائیں مقصد اپنے اقتدار کو بچایا جائے، کیا قائداعظم کا یہ فرمان تھا کہ آرمی چیف کو بند کمرے میں بٹھا کر تاحیات توسیع کی دعوت دی جائے، کیا قائداعظم کا یہ فرمان تھا کہ اتنے قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی ہونی چاہیے، کیا قائد اعظم کا یہ فرمان تھا کہ خانہ کعبہ کے عکس والی گھڑی بیچ دو؟ عمران خان اپنی حرکتوں کی قائد اعظم کے اعلیٰ فرامین سے مطابقت کی کوشش نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ سمیت تمام بدعنوانیوں کا حساب دینا پڑیگا، عمران خان کا ذہن جمہوری نہیں، وہ ناکام، کرپٹ اور نااہل شخص ہے، عمران خان ملک میں عدم استحکام اور تقسیم چاہتے ہیں، وفاقی حکومت گرانے کیلئے آنے والا اپنی صوبائی حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے کر چلتا بنا، حقیقی آزادی کے نام پر لگائے گئے ڈرامے کا ڈراپ سین پوری قوم نے دیکھا، حکومت ہر طرح کی سیاسی مہم جوئی کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی، عمرانی دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا۔