لاہور: ( دنیا نیوز ) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پارٹی کے تمام ذمہ داران سے رائے لے چکا ہوں، اب مزید مشاورت نہیں فیصلے کا اعلان ہو گا، اسمبلیاں دسمبر میں ہی تحلیل ہوں گی، 17 دسمبر کو دو اسمبلیوں سے نکلنے کی تاریخ کا اعلان کروں گا، کسی سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا، میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو اور ان کا وقار اوپر جائے، جنرل (ر) باجوہ کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے، سابق آرمی چیف نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو این آر او ٹو جنرل(ر) باجوہ نے دیا۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آج اپنی سنیئر لیڈر شپ کے ساتھ میٹنگ کی، اجلاس میں ملکی اہم ایشوز پر بات ہوئی، شرمناک طریقے سے بڑے بڑے ڈاکوؤں کے کیسز معاف کیے جا رہے ہیں، ایسی چیزیں تو بنانا ری پبلک میں بھی نہیں دیکھی تھیں، دنیا کا کوئی ایسا ملک بتا دیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور وہ غریب ہو، جن ممالک میں طاقتور مجرموں کو نہ پکڑا جائے وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زندگی میں ایسا ظلم نہیں دیکھا، یہ ڈاکو ملک سے بھاگے ہوئے تھے، یہ سارے باری باری واپس آرہے ہیں اور ان کے سارے کیسز ختم ہو رہے ہیں، جیل چھوٹے چھوٹے چوروں سے بھرے ہوئے ہیں، آج ملک میں بے روزگاری، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، دو بڑے خاندانوں نے 30 سال ملک کو لوٹا، زرداری، شریف خاندانوں کی لوٹ مار پر دنیا میں کتابیں لکھی گئیں، اگر ان کے خلاف وہ کتابیں غلط لکھی ہیں تو ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف برطانوی نشریاتی ادارے نے ڈاکیو منٹری بنائی، سب کو این آر او ٹو دے کر پاک کیا جارہا ہے، این آر او ون کے بعد پاکستان کے چار گنا قرضے بڑھے تھے، پہلا این آر او مشرف اور اب ان کو این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا، افسوس سلیمان شہباز واپس آیا اس کو ہار پہنائے گئے، سلیمان شہباز یہ بتاؤ رمضان شوگر ملز ملازمین کے اکاؤنٹ میں 16 ارب کیسے آئے، سلیمان شہباز بتاؤ تمہارے کیس کے چار گواہان کیسے مرے، جب سارے گواہان مرگئے تو یہ سارے واپس آگئے، اسحاق ڈار نے بچوں کو 5 ملین ڈالر بھیجے، وزیر خزانہ سے رسید مانگی گئی سابق وزیراعظم کے جہاز میں بیٹھ کر بھاگ گیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ یہ لوگ آج تک ایک چیز کی منی ٹریل نہیں دے سکے، افسوس اب زرداری اور اسکی بہن کے کیسز بھی معاف ہوجائیں گے، 26 سال سے پاکستان میں انصاف کی جدوجہد کر رہا ہوں، آج ملک کا کسان رو رہا ہے، ہم آج تباہی کے کنارے کھڑے ہیں، معیشت اس لیے تباہ ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف نہیں، قرضوں کا رسک 5 فیصد سے 100 فیصد تک پہنچ گیا ہے، ملک کی اکانومی سکڑتی جا رہی ہے، ہم گروتھ 6 فیصد پر چھوڑ کرگئے آج صفر پر آگئی ہے، آج دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، ہماری معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے، ملک کی انڈسٹریز بند ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں آمدن نہیں ہوگی تو قرضوں کو کیسے واپس کریں گے، آج پیاز کی قیمت400 ، ٹماٹر 300، آٹا 100، دالیں 50، گھی 50 فیصد قیمتیں بڑھ چکی ہے، آج عام آدمی کیسے گزارہ کرے گا، کوئی ادارہ جزیرہ نہیں کہ ملک نیچے جائے گا تو وہ ادارہ بچ جائے گا، مجھے تو لگ رہا ہے سازش کے ذریعے پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لیجایا جارہا ہے، اگر پاکستان ڈیفالٹ ہوگیا تو نیشنل سکیورٹی متاثر ہوگی، جن لوگوں نے ہمیں بیل آؤٹ کرنا ہے تو پھر وہ قیمت مانگیں گے، ایک تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہماری مدد کرے، بالکل کسی سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا، میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو اور ان کا وقار اوپر جائے، جنرل باجوہ کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو مضبوط فوج کی ضرورت ہے، کسی صورت فوج کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتا، فوج کا ادارہ تب مضبوط ہوگا جب مداخلت نہیں ہوگی، گزشتہ 7 ماہ میں ہمارے ساتھ کھلی دشمنی کی گئی، توشہ خانہ کیس کے پیچھے کون تھا؟ کون لوگوں کو گرفتار کروا رہا تھا؟ اعظم سواتی کو ٹویٹ پر اتنی بڑی سزا دی گئی، ان کو برہنہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہاں کیا ہورہا ہے، اعلیٰ عدلیہ اگر ہمارے انسانی حقوق کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ میں اور ارشد شریف کی والدہ اپنی ایف آئی آر نہیں کٹوا سکتے، ہم مشرف پر تنقید کرتے تھے تو مطلب فوج پرتنقید نہیں تھی، جنرل باجوہ پر تنقید کا مطلب فوج پر تنقید نہیں، عوام فوج سے پیار کرتے ہیں، باجوہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن نہیں کر سکتا تھا، آج پاکستان کی معیشت زمین پر چلی گئی، میرا منہ بند کرنے کے لیے قاتلانہ حملہ ہوا، جب تک زندہ ہوں آواز بلند کرتا رہونگا، اگر ادارے کے اندر کوئی کالی بھیڑیں ہوں تو ان کے خلاف ایکشن سے ادارے کا وقار بلند ہوتا ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 26 سالہ سیاسی زندگی میں چیف الیکشن کمشنر اور سندھ الیکشن کمشنر جیسا شخص نہیں دیکھا، سندھ کا الیکشن کمشنر سندھ حکومت کا ملازم ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ہمارے کیس کو نہیں سنا جارہا، چیف الیکشن کمشنرکا ون پوائنٹ ایجنڈا مجھے نا اہل کرنا ہے، توشہ خانہ میں ہر چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز کی، دوسرا فارن فنڈنگ کیس میں صحیح معنوں میں ہم نے فنڈ ریزنگ کی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے فارن فنڈنگ کے کیس پر چار سال سے کوئی فیصلہ نہیں ہورہا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ تحریک انصاف نے چالیس ہزار ڈونرز کا حساب دیا، ہم انتظار کر رہے ہیں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی فنڈنگ کیس کے فیصلے کا، توشہ خانہ کیس میں کسی قسم کا میں نے کوئی قانون نہیں توڑا، نواز شریف، زرداری نے توشہ خانہ میں ڈاکہ مارا، زرداری نے توشہ خانہ سے 3 اور ایک گاڑی نواز شریف نے نکالی، چیف الیکشن کمشنر توشہ خانہ سے گاڑیوں کا کیس کیوں نہیں کھولتا، کیا وجہ ہے چیف الیکشن کمشنر ہمارے خلاف فیصلہ دیتا ہے، توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کی اجازت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کےخلاف ہم عدالت گئے ہمارے کیس ہی نہیں سنے جاتے، اگر پاکستان میں فری اینڈ فیئر الیکشن نہ کرائے گئے تو انتشار ہوگا، ملک کے حالات پہلے ہی بہت برے ہیں، چور میچ نہیں کھیل سکتے اور کسی طرح مجھے نا اہل کروانا چاہتا ہے، فوج، عدلیہ کو اگر ملک کی فکر ہے تو خدا کے واسطے ملک کو صاف اور شفاف الیکشن کی طرف لیکر جائیں اس کےعلاوہ کوئی حل نہیں، کسی بھی ماہرین سے پوچھ الیکشن کےعلاوہ راستہ نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے اپنی مشاورت مکمل کرلی ہے، 17 دسمبر کو لبرٹی چوک میں خطاب کے دوران پنجاب، خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کرونگا، قانون کے مطابق جیسے اسمبلیاں تحلیل ہوں تو پھر 90 دن کےاندر الیکشن ہوگا، اگر دو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن ہوگا تو 70 فیصد الیکشن ہوگا، افسوس مجرم نہیں چاہتے کہ عام انتخابات کرائے جائیں، ان کا ایک ہی مقصد ان کے کرپشن کیسزمعاف ہوں، ان کو ڈر ہے یہ الیکشن ہار جائیں گے اور ان کے کیسز پھر کھل جائیں گے، قوم کا مفاد ہے فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 17 دسمبر کو دو اسمبلیوں سے نکلنے کی تاریخ کا اعلان کروں گا، ہمارے اراکین قومی اسمبلی سپیکر کے سامنے جا کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا ہے، جب ہم حکومت میں تھے تو جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ احتساب کو بھول جائیں، ان کی طرف سے درخواست آئی تھی کہ انہیں فیٹف میں این آر او ٹو دے دیں، ابھی نواز شریف آئے گا اور ڈرائی کلین ہوجائےگا۔