پشاور: (دنیا نیوز) آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کو 8 سال مکمل ہو گئے مگر زخم آج بھی تازہ ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو آج ہی کے دن پشاور میں آرمی پبلک سکول پردہشت گردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں کونشانہ بنایا اور100 سے زیادہ طلباء کو بے دردی سے شہید کردیا۔
شہدا کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کر سکے، دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کر کے علم کی شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔
اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد قوم نے نئے عزم کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی جبکہ حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے لئے قومی ایکشن پلان شروع کیا۔
دہشت گردوں نے مستقبل کے معماروں کونشانہ بنا کرملک اور سکیورٹی اداروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی لیکن ملک بھر میں جاری تعلیمی سرگرمیاں ملک دشمنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ قوم کےعزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے میں دسویں جماعت کا طالب علم اسفند خان بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا، اسفند ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس لئے والدین کی انسیت بھی اس سے زیادہ تھی، والدین نے جگر کے ٹکڑے کا سامان اب بھی اسی طرح سنبھال رکھا ہے۔
دہشت گردوں نے علم کی شمع روشن کرنے والی سکول ٹیچر فرحت عباس کو بھی شہید کردیا گیا تھا، فرحت عباس گولیوں کی آواز سن کر سکول میں موجود اپنے بچوں کی طرف دوڑیں اورانہیں سیڑھیوں میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا، آج بھی شہید فرحت عباس کی یاد ان کے خاندان کو غمگین کر دیتی ہے۔
شہید حسن زیب کے والد نے ایک کمرے میں بیٹے کے استعمال کی تمام چیزیں رکھ دی ہیں، بچپن کی تصاویر بھی حسن زیب کے کمرے کی زینت بن گئی ہیں، جہاں اس کے استعمال کے پرفیوم کے ساتھ یونیفارم اور دیگر سامان بھی پڑا ہے لیکن گھر میں اب صرف حسن زیب کی یادیں ہی ہیں۔
آڈیٹوریم ہال میں دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور بچوں کی جان بچانے کے دوران قوم کی بہادر بیٹی بینش نے شہادت پائی، ہمت اور حوصلے کی نئی داستان رقم کرنے پربینش شہید کو تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔
15 سالہ اسامہ طاہراعوان بھی ان شہداء میں شامل ہے، اسامہ کے والدین کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں، اسامہ کےاستعمال کی اشیاء آج بھی کمرے کی زینت ہیں، میڈل سے لے کر کتابیں اورکیمرہ اس کی یاد دلاتا ہے۔
واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پشاور کے اندر قتل عام کرتے ہوئے سکول کے طلبا اور پرنسپل طاہرہ قاضی شہید سمیت 150 افراد کو مار ڈالا تھا۔