لاہور: (میاں ندیم) 2022 ملکی سیاست کیلئے ایک ہنگامہ خیز سال رہا ہے، ہر دن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا تو نت نئے سکینڈلز اور مقدمات نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پریشان کیے رکھا، سال آغاز کے آغاز پر وفاق کی حکمران جماعت آج ایوان سے باہر ہے تو 13 جماعتی ا تحاد مسند اقتدار پر بیٹھا ہے۔
2022 میں تحریک عدم اعتماد، توشہ خانہ ریفرنس، مبینہ آڈیو ٹیپس، سیاستدانوں کی گرفتاریاں اور عسکری قیادت کی تبدیلی سیاسی منظر نامے پر چھائی ر ہیں، پہلی بار کسی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو میاں شہباز شریف نے بھی پہلی مرتبہ وزارت عظمی ٰ کا منصب سنبھالا۔
سال 2022 کا آغازپی ڈی ایم کی مہنگائی مکاؤ تحریک سے ہوا اور پی ٹی آ ئی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جلسے جلوس اور لانگ مارچز کا اعلان کردیا، پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں کراچی سے شروع ہو کر 10 روز بعد 8 مارچ کو اسلام آباد پہنچا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کا فیصلہ کن راونڈ شروع ہوا اور اسی روز اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔
عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا اوراعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم تحریک انصاف کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ان کے ہی 20 اراکین منحرف ہو گئے اور سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو گیا۔
28 مارچ کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی، 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
7 اپریل کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش مسترد کر تے ہوئے حکم دیا کہ 9 اپریل صبح 10:30 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرائی جائے۔
تاہم پورا دن قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی گئی اور رات 12 بجے سے قبل سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اپنے عہدے سے مستعفی ٰ ہو گئے، 12 بجے سے قبل ہی ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب 12:02 تک ملتوی کر دیا گیا۔
10 اپریل کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے منظور ہوئی اور عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے جبکہ 11 اپریل کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔
وزارت عظمیٰ کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار شاہ محمود قر یشی سمیت تمام پی ٹی آٗئی اراکین نے احتجاجاً واک آوٹ کر دیا اور شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان منتخب ہو گئے جبکہ پی ٹی ائی اراکین قومی اسمبلی نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔
وفاق میں تبدیلی کیساتھ ہی تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے پر حمزہ شہباز نئے وزیر اعلی ٰ پنجاب بن گئے، حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چند ماہ ہی چل سکی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الٰہی کے سر سج گیا۔
اس کے بعد 25 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان خیبر پختونخوا سے قافلے کے ہمراہ ا سلام آباد میں دھرنے کے لیے ڈی چوک کے لئے نکلے لیکن وفاقی حکومت کے سخت کریک ڈاؤن پر دوسرے دن صبح سویرے ہی احتجاج موخر کر دیا، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 11 اراکین کے استعفے منظور کیے تو 8 کے ضمنی انتخاب میں عمران خان ایک مرتبہ پھر خود 6 حلقوں سے کامیاب ہو گئے۔
27 اکتوبر کو عمران خان نے ایک بار پھر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ شروع کیا لیکن 4 نومبر کو وزیر آباد کے قریب ان پر فائرنگ ہوئی جس میں ایک شخص جاں بحق جبکہ عمران خان سمیت کئی پی ٹی آئی رہنما زخمی ہوگئے۔
تین ہفتے کے وقفے کے بعد 26 نومبر کو پی ٹی آئی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچا تو عمران خان نے اپنے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔