موت: اٹل حقیقت

Published On 06 January,2023 03:39 pm

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موت کو ’’اَجَل‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ’’اجل‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کا مقررہ وقت‘ جو کسی قیمت پر نہ ٹلے‘‘۔

موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔ ہر ایک جانتا ہے کہ ایک دن اس کی دنیوی زندگی کا تسلسل یقیناً ختم ہو کر رہے گا اور جب اس کی موت کا وقت آئے گا تو دنیا کی کوئی طاقت اور اعلیٰ سے اعلیٰ سائنسی اسباب وسائل اس کو موت سے نہ بچا سکیں گے۔قرآن مجید کی سیکڑوں آیتوں میں موت، حشر اور جنت و دوزخ کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے اور لوگوں کو اس اٹل حقیقت کیلئے تیار رہنے کا حکم فرمایا گیا ہے، چند آیات ملاحظہ ہوں۔

’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیئے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتاً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘(آل عمران: 185)۔

ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ’’اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے‘‘(سورہ لقمان: 34)۔

’’تم چاہے کہیں بھی ہو موت تمہیں آ ہی پکڑے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعہ ہی میں ہو‘‘(النسائ:78)

’’پھر جب ان کا مقرر وقت آ پہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘(النحل: 61)

’’اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہنے لگے : اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کر لیتا اور نیکو کاروں میں سے ہو جاتا، اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو‘‘ (المنافقون: 10، 11)

’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے، تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ہر گز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطورِ حسرت) کہہ رہا ہو گا، اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘(المومنون: 99، 100)

لیکن اس کے مقابل یہ بھی ایک عجیب حقیقت ہے کہ موت جتنی زیادہ یقینی ہے اتنی ہی لوگوں میں اس سے غفلت اور عدم توجہی پائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ مجلسوں میں موت کا ذکر تک ناپسند کیا جاتا ہے۔ یہ غفلت ایمانی تقاضے کے بالکل برخلاف ہے۔ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ کثرت سے موت کو یاد کیا کریں اور جہاں تک ممکن ہو آخرت کی تیاری کیلئے ہر وقت فکر مند رہنا چاہئے۔

قرآن مجید کی سیکڑوں آیتوں میں موت،حشر اور جنت ودوزخ کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے اور انبیاء کرام کی بعثت کا اہم ترین مقصد بھی یہ تھا کہ انسان کو اس کے اصلی اور دائمی وطن سے آگاہ کر کے وہاں کی دائمی نعمتوں کا اسے مستحق بنا دیا جائے۔ اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو زیادہ یاد کیا کرو‘‘(فی السنن الترمذی، کتاب: الزھد، باب: ماجا فی ذکر الموت، الرقم: 2307)

حضرت ابو موسیٰؓ حضور نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند فرماتا ہے‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب: الرقاق، الرقم : 6143، صحیح مسلم، کتاب: الذکر والدعاء والتوبہ والاستغفار،الرقم : 2684، 2686)

حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ جب رات کا تہائی حصہ گزر جاتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اٹھ کھڑے ہوتے اور فرماتے: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو (قیامت کا) پہلا نفخہ آ چکا، دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت اپنی ہولناکیوں سمیت آ پہنچی، موت اپنی سختیوں سمیت آچکی‘‘ (الترمذی فی السنن، کتاب: صفۃ القیامۃ والرّقائق والورعِ، باب: 23، الرقم : 2457)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہو ، جیسے تم ایک (راہ چلتے) مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر کہا کرتے تھے: ’’جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور بیماری سے پہلے صحت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو‘‘ (بخاری:6414)۔ یعنی دنیا کی عیش و عشرت میں کھو کر آخرت کو بھول جاؤ گے تو موت کے وقت پچھتاؤ گے کہ کاش! میں نے آخرت کیلئے کوئی زادِ راہ جمع کیا ہوتا، اسی طرح بیماری کے عالم میں انسان انتہائی چاہت و خواہش کے باوجود بہت سے کام نہیں کر سکتا تو عالَم صحت میں جب انسان کی ساری توانائیاں عروج پر ہوتی ہیں، وہ اعمالِ خیر کیوں بجا نہیں لاتا کہ بعد میں کفِ افسوس نہ ملنا پڑے؟ اسی لیے کہا گیا: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘، یعنی دنیا میں ایمان وعمل کی جو فصل کاشت کروگے، آخرت میں اسی کا پھل ملے گا‘‘ (اِحیاء علوم الدین، جلد:4، ص:24)۔

ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپؓ نے نصحیت فرمائی کہ ’’تم موت کو کثرت سے یاد کیا کرو تمہارا دل نرم ہو جائے گا‘‘۔

حضرت علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ قبر عمل کا صندوق ہے اور موت کے بعد اس کی خبر ملے گی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کا معمول تھا کہ وہ علماء کو جمع فرما کر موت، قیامت اور آخرت کا مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ پھر ان احوال سے متاثرہو کر سب ایسے پھوٹ کر روتے تھے گویا کہ اس کے سامنے کوئی جنازہ رکھا ہوا ہو۔ موت کو یاد کرنے کے بڑے فوائد ہیں علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ بعض علماء سے منقول ہے کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد کرے اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ تین باتوں کی توفیق مرحمت فرماتا ہے، (1) اگر اس سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ جلد ازجلد توبہ کرکے گناہ معاف کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں توبہ کے بغیر موت نہ آجائے، (2)موت کو یاد کرنے والا حرص طمع میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ بھی اسے میسر ہوتا ہے اسی پر راضی رہتا ہے اور یہ قناعت اسے طبعی سکون اور دلی راحت عطا کرتی ہے اور یہ سوچتا ہے کہ تھوڑی بہت زندگی ہے جس طرح بھی گزر جائے گزار لیں گے، زیادہ کی فکر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ (3)موت کو استحصار رکھنے والا شخص جب عبادت کرتا ہے تو پوری دلجمعی کی دو وجوہات ہوتی ہیں اوّل یہ کہ اسے خطرہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں آئندہ اسے عبادت کا موقع ملے کہ نہ ملے لہٰذا ابھی اسے جتنا اچھا بنا لیں غنیمت ہی غنیمت ہے، دوسرے یہ کہ آخرت کی یاد کی وجہ سے اسے عبادت پر ملنے والے عظیم اخروی بدلے کا کامل یقین ہوتا ہے، جس کی بناء پر اسے عبادت میں وہ کیف و سرور نصیب ہوتا ہے جو الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔

ایک عربی شاعر کہتا ہے ترجمہ!میرے دوست دنیا کے آرام اور راحت سے دھوکے میں مت پڑنا اس لئے کہ عمر ختم ہو جائے گی اور عیش جاتی رہے گی، جب تم کسی جنازے کو اٹھا کر قبرستان لے جاؤ تو یہ یقین کر لینا کہ اس کے بعد تمہیں بھی ایسے ہی اٹھا کر لیجایا جائے گا۔

الغرض قرآن و حدیث میں موت اور مابعد الموت کے اَحوال، محشر، میزانِ عدل کا قیام، جزا و سزا کا نفاذ، جنت و جہنم کے اَحوال اور ان میں دخول تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کا مذاق کے طور پر ذکر کرنا قرآن و حدیث میں بیان کردہ غیبی حقیقتوں کی اہانت کے مترادف ہے۔ آخرت کے تصور کو ’’مُردہ فکر‘‘ سے تعبیر کرنے کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور دنیا کی یہ زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور بے شک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے‘‘ (العنکبوت:64)۔

اللہ تعالیٰ ہمیں موت کو یاد کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی معروف عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر انتہائی پر اثر اور تحقیقی مضامین لکھ رہے ہیں۔