لاہور: (دنیا نیوز) پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر اپوزیشن برہم ہو گئی، ایوان میں ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، کاغذ کے جہاز بنا کر ایوان کی فضا میں کھیلتے رہے، سپیکر کے ڈائس کا بھی گھیراؤ کر لیا۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے انچاس منٹ کی تاخیر سے سپیکر سردار سبطین خان کے زیر صدارت شروع ہوا، اجلاس میں مسلم لیگ ن نے جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے اجلاس کے آغاز میں ہی نعرے بازی شروع کر دی، اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کو ایشو بنا لیا، اعتماد کا ووٹ لو، اعتماد کا ووٹ کے نعروں سے ایوان میں ہنگامہ برپا کر دیا۔
اپوزیشن ارکان نے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے ڈائس کا بھی گھیراؤ کر لیا، جواب میں حکومتی ارکان بھی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے، حکومتی ارکان مہمان گیلری میں بیٹھے اور رانا ثنا اللہ خان اور عطا اللہ تارڑ کے خلاف نعرے بازی کی۔
حکومتی رکن رانا شہباز کا کہنا تھا کہ عطااللہ تارڑ پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو مطلوب ہے، اس کو گرفتار کیا جائے، جواب میں اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر کاغذ فضا میں لہرا دیئے۔
سپیکر سبطین خان نے اسمبلی فلور پر کارروائی کے پھٹے ہوئے کاغذ اٹھانے کا حکم دیدیا، کچھ ارکان نے ایجنڈے کے کاغذات سے جہاز بنا کر ایوان کی فضا میں لہرائے، جہاز بنا کر حکومتی ارکان کی طرف بھی پھینکتے رہے، فیاض الحسن چوہان پر بھی جہاز بنا کر اڑایا تو وہ خاموش ہو گئے۔
اجلاس میں شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے باعث سپیکر کیلئے اجلاس کی کارروائی چلانا مشکل ہو گیا، حکومتی رکن رانا شہباز کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی سے عطا تارڑ کو نکالا گیا وہ آ کر بیٹھا ہوا ہے، ان میں حوصلہ ہے تو نشستوں پر بیٹھ کر بات سنیں، یہ نیب سے اپنے کیسز ختم کرانے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ مہمانوں میں اسد عمر بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں خوش آمدید کہتے ہیں، اپوزیشن والے وفاقی وزراء کو لے کر آئے اپنی کارکردگی دکھائیں، ایک سیکرٹری جنرل ہی ان سب کے لئے کافی ہے، جہاں تک اعتماد کے ووٹ کا تعلق ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں، 6 ماہ سے جو بھی واقعات ہوئے عدالتوں میں ان کی لیگل ٹیم نے منہ کالا کرانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے، سیاست پر ہی بات کر لیں، اعتماد کا وقت آیا پہلے بھی جیتے آئندہ بھی جیتیں گے، رانا مشہود احمد خان کا کہنا تھا کہ ایوان میں کیبنٹ موجود نہیں، اجلاس کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، پوری کارروائی غیر آئینی و غیر قانونی ہے اس کارروائی کو چلنے نہیں دیں گے، یہ اقلیتی حکومت اپنا اعتماد کھو چکی ہے، پوری اپوزیشن کہنا چاہتی ہے اقلیتی حکومت نہیں چل سکتی۔
رانا مشہود احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ 11 تاریخ حکومت کے جانے کی تاریخ ہے، گورنر کے فیصلے میں وزیر اعلیٰ سیٹ پر نہیں رہے، جو حکومت سیاست کر رہی ہے وہ ان کا منہ کے علاوہ بہت کچھ کالا کر رہی ہے۔
سپیکر سبطین خان کا کہنا تھا کہ عدالت میں کیس چل رہا ہے، عدالت نے گورنر کا آرڈر معطل کیا تھا تو کیسے اجلاس غیر آئینی ہوا، جب وقت آئے گا تو وزیر اعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔
اپوزیشن کا شور شرابہ بے سود رہا ،حکومتی ارکان نے اپوزیشن کی مزاحمت کے باوجود 21 سرکاری بل منظور کرا لئے، اپوزیشن ارکان ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑتے رہے مگر سپیکر پنجاب اسمبلی بلوں کی ریڈنگ کرتے رہے، اپوزیشن ارکان بے بس ہو کر سپیکر ڈائس کے قریب جمع ہو کر نعرے بازی کرتے رہے۔
شور شرابے اور نعرے بازی ہونے کے باوجود بھی راجہ بشارت بل پیش کرتے رہے اور ایوان سے منظوری حاصل کرتے رہے، ایجنڈا مکمل ہونے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس 10 جنوری منگل کے روز 2 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔