لاہور: (دنیا نیوز) گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم واپس لے لیا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت وکیل چودھری پرویز الٰہی بیرسٹر علی ظفر نے اعتماد کے ووٹ کے لئے تاریخ اور وقت کے تعین سے متعلق گورنر کے اختیارات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گورنر اجلاس بلانے کے لئے سپیکر اسمبلی کو کہہ سکتا ہے، تاریخ اور وقت کا تعین سپیکر کرتا ہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ تو آپ نے لیا ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا، پھر آپ اسمبلی جا کر جو کرنا چاہیں وہ کریں، آپ نے یہ جو کاپی پیش کی ہے کہ اس کے مطابق آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے، اس کا مطلب ہے گورنر کا حکم درست تھا، اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ بھی کالعدم ہو جائے گا، آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ مستقبل میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے اور عدم اعتماد کے لئے کتنے دن کا وقت ہونا چاہیے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کم از کم چودہ روز ہونے چاہئیں، اس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف دو روز دیے، جو مناسب وقت نہ تھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر پابند ہیں کہ کم از کم 7 دن کا نوٹس دیں، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔
گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کو آئین اجازت دیتا ہے وہ اجلاس بلائیں، پرویز الٰہی گورنر کی ایڈوائس پر عمل نہیں کر رہے، اس پر بیرسٹر علی ظفر خان نے کہا کہ گورنر وقت اور تاریخ کا تعین نہیں کر سکتا، یہ اختیار صرف سپیکر اسمبلی کا ہے، اگر سپیکر گورنر کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اجلاس طویل عرصے کے لئے ملتوی کر دے تو معاملہ عدالت میں جائے گا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے تاریخ مقرر نہ کرنے پر سپیکر تاریخ مقرر کرے گا جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا آئین سے بالاتر اختیارات گورنر استمال نہیں کر سکتے، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر کے اختیارات میں ہے کہ وہ تاریخ دے سکیں، اس پر بیرسٹر علی ظفر اعوان کا کہنا تھا کہ گورنر نے عدم اعتماد کے لئے پرویز الٰہی کو مناسب وقت نہ دیا، گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیر قانونی ہوگا، گورنر اس طرح عیر قانونی طریقے سے وزیراعلیٰ کو بتا نہین سکتے تھے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کی جائے گا کہ گورنر کی وجوہات قابل اطمینان ہیں، کیا اسمبلی کے ہر سیشن پر گورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے، اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کیا گورنر اگلے ہفتے پھر یہی عمل دہرا سکتا ہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر اعتماد کے ووٹ سے مطمئن ہیں، جس پر گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیے۔
بعدازاں گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفیکیشن واپس لینے اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی درخواست نمٹا دی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا تھا، پرویز الٰہی کو ہٹانے کے نوٹیفیکیشن کو معطل کیا گیا، پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ نے 12 جنوری کو آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے، گورنر کے وکیل منصور اعوان نے گورنر کی جانب سے بیان عدالت میں دیا جسے عدالت نے رکارڈ کا حصہ بنایا، گورنر پنجاب کے وکیل نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا بیان دیا۔