لاہور: (دنیا نیوز) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل اور دیگر ممالک سے انفلوز آگئے تو ڈالر نیچے بھی آسکتا ہے۔
پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں میں 3 ہزار ارب روپے اضافہ ہوا ہے، ڈیفالٹ رسک کم ہوتا ہے تو ڈالر کی مانگ میں بھی کمی آتی ہے،
انہوں نے کہا کہ تاخیر سے فیصلے لینے سے ترسیلات زر میں 10 فیصد کمی آئی، تاخیرسے فیصلے کرنے پر ہنڈی حوالے کا رجحان بڑھا، ایکسپورٹرز نے ڈالر باہر روکے رکھے، آئی ایم ایف پروگرام ہوتا تو شاید یو اے ای کا بینک پیسے واپس نہیں لیتا، بروقت فیصلے لیتے تو جن قرضوں کی ادائیگی کر رہے تھے انہیں ری رول کر لیتے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ روپے کی اصل قدر مارکیٹ طے کرتی ہے، کسی ملک کا ڈیفالٹ رسک بڑھتا ہے تو لوگ ڈالر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، آئی ایم ایف کی راہ ہموار ہوئی تو عالمی کمپنیوں کا خوف بھی کم ہوگا، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا تو مہنگائی ہوگی لیکن غیر یقینی صورتحال کم ہو جائےگی، اس وقت غیر ملکی بانڈز کا اجراء ممکن نہیں، پہلے آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیں، قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ابھی نہیں کرنی چاہئے، ہمارا 40 فیصد قرضہ ری سٹرکچر نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آسان یہ ہوگا کہ پیرس کلب اور چین سے ایک 1 ارب ڈالر قرض لے لیں، چین نے دنیا بھر کو قرض دے رکھا ہے، ہم چین کو قرضوں کی ری شیڈولنگ کا کہیں گے تو دیگر ممالک کھڑے ہو جائیں گے، چین سے قرض برائے ادائیگی قرض کی بات کریں گے جو ہم کرتے رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے توانائی نرخ طے کرتے ہوئے واجبات شامل کیے جائیں، حکومت کیلئے بجلی کی قیمتیں فی یونٹ 10 روپے بڑھانا بہت مشکل ہوگا، جب ہم نے بجلی کے نرخ بڑھائے تھے تو بلوں کی وصولی کم ہوگئی تھی، توانائی کے نرخ بڑھانے سے متعلق آئی ایم ایف سے بات ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روپے کی قدر گرنے سے امپورٹ ڈیوٹیز سے آمدن بڑھے گی، ایسے ٹیکس لگانے چاہئیں کہ صنعتی ترقی متاثر نہ ہو، ایکسپورٹرز کیلئے امپورٹ پر سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ٹھیک نہیں، بجلی کے شعبے کو پچھلے سال خزانے سے 1072 ارب روپے دیے گئے، سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو ملازمین کی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں، بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ کو بھی بڑھانا پڑے گا۔