کراچی: (دنیا نیوز) پولیس ہیڈ آفس پر حملہ کے بعد کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیا، آپریشن کے دوران تمام دہشت گرد مارے گئے اور عمارت کو کلیئر کرا لیا گیا۔
آپریشن مکمل ہونے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے تصدیق کی کہ حملہ آور 3 تھے، تینوں ہلاک ہو گئے جبکہ دہشت گردوں کےخلاف بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2 پولیس، ایک رینجرز اہلکار اور ایک سویلین ملازم شہید ہو گئے۔
کراچی پولیس ہیڈ آفس پر حملہ شام سوا سات بجے کیا گیا، دہشت گرد مزاحمت کے باوجود عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، شدید فائرنگ اور دستی بموں کا استعمال ہوا، وقفے وقفے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس ہیڈ آفس حملے میں بیرونی ہاتھ ہوسکتا ہے، رانا ثناء اللہ
واقعات کے مطابق کراچی پولیس آفس پر شام سوا 7 بجے کے قریب دہشت گردوں نے حملہ کیا، پولیس آفس کے قریب شدید فائرنگ اور دھماکے بھی سنے گئے، شدید فائرنگ کی آوازوں اور دھماکوں سے علاقہ گونج اٹھا، شہر بھر سے پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی۔
پولیس ہیڈ آفس میں عملہ موجود تھا، حملہ کے فوراً بعد پولیس حکام نے کے پی او کی تمام لائٹس بند کر دیں، پولیس ہیڈ آفس کے عقب سے حملہ آوروں نے دستی بم پھینکے، دہشت گرد کراچی پولیس آفس داخل ہوئے، وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
پولیس حکام کے مطابق حملہ آور گروپ کی شکل میں تھے، یہ ایک منظم حملہ تھا، مسلح دہشت گرد مزاحمت کے باوجود اندر داخل ہو گئے اور پارکنگ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، اطلاعات ہیں کہ وہ عقبی راستے سے داخل ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم، صدر مملکت سمیت اہم سیاسی شخصیات کی پولیس ہیڈ آفس پر حملہ کی مذمت
پولیس حکام کے مطابق دہشت گردوں کی جانب 20 سے 25 گرنیڈ کے حملے کیے گئے، ان کا گھیراؤکرکے ہم نے آپریشن کیا، گرنیڈ مارنے کا مقصد گیٹ سے داخل ہونا تھا۔
ڈی آئی جی آر آر ایف کے مطابق دہشت گرد خودکش جیکٹ سے لیس تھے، چنے بھی ساتھ لائے تھے، وہ تمام سامان نیلے بیگ میں ساتھ رکھ کر لائے تھے۔
کراچی پولیس ہیڈ آفس پر حملہ کے خلاف پولیس کی بھاری نفری اور رینجرز نے مشترکہ آپریشن کیا، پاک فوج کے دستے بھی ساتھ تھے، جوانوں نے بھرپور جوابی کارروائی کی، سرچنگ کے دوران اہلکار نعرے بھی لگاتے رہے۔
جناح ہسپتال انتظامیہ
جناح ہسپتال میں لائے گئے زخمیوں اور مرنے والوں کی فہرست کے مطابق ہسپتال لائے گئے افراد میں 4 شہدا شامل تھے، شہید افراد میں پولیس کانسٹیبل غلام عباس، 24 سالہ رینجرز سب انسپکٹر تیمور، خاکروب اور ایک نامعلوم شخص شامل تھا، 7 زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی۔
بم ڈسپوزل سکواڈ
بم ڈسپوزل سکواڈ نے کراچی پولیس آفس میں دہشتگردوں کے حملے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ تیار کر لی، رپورٹ کے مطابق 2 خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنا دیا گیا، دونوں خودکش جیکٹ کا وزن 7 سے 8 کلو تھا، دونوں خود کش جیکٹس میں بال بیرنگ شامل تھے، مرنے والے دہشتگردوں نے پہنی ہوئی تھیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 5 دستی بم دہشتگردوں نے پھینکے لیکن پھٹے نہیں ، جن کو ناکارہ بنا دیا گیا، ایک دستی بم دہشتگرد کی جیب سے نکال کر ناکارہ بنایا گیا۔
اسلام آباد میں ہائی الرٹ
کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے اسلام آباد میں سکیورٹی ہائی الرٹ کے احکامات جاری کر دئیے، تمام افسروں کو خود اپنے علاقے میں رہنے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر شہر کے داخلی و خارجی راستوں اور اندرون شہر چیکنگ کو بڑھا دیا گیا، تمام اہم پولیس و دیگر عمارات اور ریڈ زونز میں سکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایت جاری کر دی گئی، آئی جی کا کہنا تھا کہ ڈیوٹی پر تعینات تمام اہلکار مکمل حفاظتی یونیفارم کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود ہوں، تمام ایمبولینسز، پولیس و دیگر وردی میں ملبوس اہلکاروں اور سرکاری گاڑیوں کو بھی چیک کیا جائے۔