آٹے کی کہانی

Published On 01 April,2023 08:43 pm

لاہور (سیدہ روزی رضوی ) کیا آپ سب کو معلوم ہے کہ ہم سب بہت منظم قوم بن گئے ہیں۔ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ قطار کے انتظار میں قطار بناتے ہیں۔

آج کل ہماری سب سے اہم قطار آٹے کے حصول کے لئے بنائی جاتی ہے اور یہ قطار اتنی لمبی ہوتی ہے کہ دیکھ کر پاکستان کے عوام کو داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ جو خندہ پیشانی سے اس قطار میں رینگ رینگ کر اپنا نمبر آنے تک اُسے برداشت کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں بجلی کے زیادہ بل آنے پر بننے والی قطار، سوئی گیس نا آنے پر دفتر کے باہر بننے والی قطار، بے نظیر انکم سپورٹ پر پیسے لینے والوں کی قطار بھی قابل فخر ہے مگر اس ماہ مفت آٹا حاصل کرنے والی قطاروں نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ کیا ہوا اگر غلطی سے قطار ٹوٹ جانے پر بھگدڑ مچ گئی۔ اُن قطار پر کھڑے ہونے والوں نے گھنٹوں نظم و ضبط، ادب، تہذیب کا مظاہرہ بھی تو کیا ہوتا ہے۔ ہم سب کتنے خود غرض ہو گئے ہیں۔

یوں لگ رہا ہے کہ آج آٹا مہنگا اور انسان سستا ہو گیا ہے۔ اس آٹے کی قطار نے 11 لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ بہت سے لوگ بے ہوش ہونے کے باوجود آٹے کی قطار میں پھر لگ جاتے ہیں۔ کیوں؟؟ اے اللہ رحم فرما ان دلوں پر جن کا حال تیرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ قطار میں کھڑے ہونے والے سب افراد مفلسی کے ہاتھوں کتنے بے بس ہیں۔ میں نے اس قطار میں بہت سے ایسے سفید پوش افراد بھی دیکھے جو مجبوری کے باعث اس قطار کا حصہ تو بن گئے مگر شرمندگی کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر فری آٹے کی بجائے آٹا سستا کر کے تمام دکانوں پر مہیا کر دیا جاتا۔ 10 کلو آٹا فری کی بجائے 400 روپے میں دے دیا جاتا۔ تا کہ ہر سفید پوش آسانی سے عزت کے ساتھ خرید سکتا اور ذلالت سے بچ سکتا۔ ہماری قوم کے لئے عجیب صورت حال ہے کہیں آٹا مفت اور کہیں وہی آٹا ڈبل سے زیادہ قیمت کے ساتھ فروخت کیا جا رہا ہے۔ فری آٹا لینے والے ذلالت، بھگدڑ اور لمبی قطاروں سے پریشان ہیں اور دکان سے حاصل کرنے والا شہری 650 کے 10 کلو والے آٹے کے تھیلے کی قیمت اچانک 1500 روپے تک بڑھ جانے پر پریشان ہیں۔

ہماری 75 سالہ کارکردگی آج بھی آٹے کا حصول ہے۔ جس نگری میں عقل اور شعور گھنگھرو باندھ لیں وہاں نفس بھی ناچتا ہے، ایمان بھی ناچتا ہے اور انسانیت بھی ناچتی ہے اور پھر ہم سب مل کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ آج ہم پاکستانیوں کو بس یہی بتایا جاتا ہے کہ IMF ہمیں غلام بنا رہا ہے جبکہ غریب عوام کے نام پر قرضے لے کر ہمیں قطاروں پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔

آج ہمارے بہت سے پاکستانی عوام سیاست اور ریاست کو پہچان گئے ہیں، کرپشن اور دھاندلی کو بھی جانتے ہیں، اپنے سیاسی حقوق اور فرائض کو بھی جان گئے ہیں، ٹیکس کسے کہتے ہیں اور ہم ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟ کتنا ٹیکس دیتے ہیں یہ بھی بھلا دیر سے پتہ چلا مگر جان گئے ہیں۔ نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے کیا ہیں ان کے فرائض کیا ہیں، ووٹ، ووٹ کی اہمیت، حکومت کیسے بنتی ہے؟ ہم حکومت کو کیا دیتے ہیں؟ اور اس کے بدلے حکومت ہمیں کیا دیتی ہے؟ الیکشن کمیشن کیا ہے؟ سپریم کورٹ کیا ہے؟ فارم 14 اور 15 کیا ہے؟ یہ تمام باتوں سے پہلے ہم بے خبر تھے اور اب باخبر ہیں۔

انشاء اللہ ہم آٹے کا بحران اور قطاروں میں کھڑے بے بس انسانوں کو بھی خود کفیل بنائیں گے۔ ویسے کتنی حیرانی والی بات ہے کچھ عرصہ پہلے جس شناختی کارڈ پر 10 لاکھ تک کا علاج ہو رہا تھا۔ اب 10 کلو آٹے کا حصول اسے اس کی حیثیت یاد دلا رہا ہے۔ ہم بھی وہ مثال ہیں کہ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ وہ بھلا وقت تھا جب گھی، آٹا، چینی اور پٹرول سستا تھا۔ اب یہ بہاریں ہمارے ملک سے آہستہ آہستہ رخصت ہو رہی ہیں۔ قطاروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قصور وار کون ہیں، سب خاموش ہیں۔ سعادت حسن منٹو کہتے تھے کہ زبانوں کے پیچھے مت چلو کوئی تمہیں ایسی کہانی نہیں سُنائے گا جس میں وہ خود غدار ہو۔

آج ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی سے غداری کر رہا ہے۔ کہیں آٹے کے تھیلوں میں آٹا کم بُورا زیادہ مل رہا ہے اور کہیں آٹے کے نام پر انسانیت کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔ آج آٹے کے نام پر بھوک ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ماہِ رمضان میں ہماری توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ نیکیاں اور اُن کا صِلہ بڑھ جاتا ہے مگر حالات ایسے سبق سکھا دیتے ہیں کہ آج ہم سب شاگرد بننے کی عمر میں اُستاد بن جاتے ہیں۔ کچھ غدار بن جاتے ہیں کچھ مہربان بن جاتے ہیں۔ مگر مسلمان ہوتے ہوئے مسلمان نہیں بن پاتے۔ عجیب کشمکش ہے، عجیب چاہت ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں۔ ہم اس دنیا سے کچھ لے کر بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس دنیا سے کچھ لے کر جا نہیں سکتے بس یہاں سے اُٹھا کر وہاں رکھ سکتے ہیں۔

ہم سب قُلی ہیں سامان اُٹھاتے پھرتے ہیں…کب تک…؟؟؟ قُلی کے نصیب میں صرف وزن ہے…وزن اور صرف وزن اِس دنیا میں کچھ بھی کسی کی ملکیت نہیں۔ ہم سب قُلی ہیں۔ واقعی ہم سب قُلی ہیں۔ لائن میں لگتے ہیں، سامان اُٹھاتے ہیں، مگر سبق حاصل نہیں کرتے۔ کاش ہمارے ہاں خوشیوں کی قطاریں بھی نظر آئیں۔ دولت مند بھی قطاروں میں نظر آئیں۔ ایسا نہ ہو کہ خوشی اُس عینک کی طرح ہو جائے جسے ایک بڑھیا بڑی دیر تک تلاش کرتی رہے اور آخر میں اُس کو اپنی آنکھوں پر ہی لگی ملے۔

آیئے مل کر اپنے آپ کو اور پھر دوسروں کو جاننے کی کوشش کریں پھر یہ جانیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور پھر یہ جانیں کہ ہم سب کس چیز کی فکر میں ہیں؟ کہیں دولت کی فکر ہمیں غربت کی طرف تو نہیں لے جا رہی؟ آٹا اور لمبی قطار کب تک غریب اور سفید پوش انسان کا وزن گراتی رہیں گی؟ آیئے مل کر سوچیں۔ کاش باذوق افراد علم و عقل کی قطار بنا کر اپنا موبائل اور کیمرہ گھر پر چھوڑ کر غریبوں کی مدد کے لئے نکلیں، مساوات قائم کریں، کسی کی عزت مجروح نہ کریں، کیونکہ بہت سے لوگ صرف بھوک سے ہی نہیں بلکہ شرم سے بھی مر جاتے ہیں۔
 

 

Advertisement