ازخود نوٹس قانون کیا ہے اوراس کی ابتدا کیسے ہوئی ؟

Published On 02 April,2023 03:53 pm

لاہور: (دنیانیوز ) پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے کے مطابق اب از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی، جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔

اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔

اس کے علاوہ مسودے میں از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کا حق اس سے پہلے دستیاب نہیں تھا۔

ازخود نوٹس کیا ہے ؟

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر جہاں پر بنیادی انسانی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔

قانونی زبان میں سوو موٹو یا ازخود نوٹس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کا بغیر کسی درخواست کے خود کسی مقدمے کی کارروائی شروع کر دینا۔

پاکستان میں رائج قانون کو حریفانہ یا ایڈورسیریل نظامِ انصاف کہتے ہیں، اس میں عام طور پر دو فریقوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی کوئی شخص آ کر شکایت کرے کہ مجھے فلاں شخص نے نقصان پہنچایا ہے اس لیے مجھے انصاف دلوایا جائے، اس کے بعد عدالت حرکت میں آتی ہے اور مقدمہ چلا کر قصوروار کو سزا دے دیتی ہے یا اگر جرم ثابت نہ ہوا تو بری کر دیتی ہے۔

لیکن کسی بھی ایسے شکایت کنندہ کے بغیر اگر عدالت خود ہی حرکت میں آ کر کسی مقدمے کی کارروائی شروع کر دے تو اسے سوو موٹو/ ازخودنوٹس لینا کہا جاتا ہے، آسان الفاظ میں اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ ایسا ہے جس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہو تو وہ اس پر نوٹس لے کر کارروائی شروع کر سکتی ہے۔

ازخودنوٹس کا اختیار کس کو ہے ؟

آئین کی اصل شق میں ’سپریم کورٹ‘ لکھا ہوا ہے لیکن حالیہ برسوں میں چیف جسٹس اس اختیار کو از خود استعمال کرتے رہے ہیں، اس کی وجہ سے ایک ابہام شروع سے رہا ہے کہ یہ اختیار کس کو حاصل ہے؟، صرف چیف جسٹس کو یا پوری سپریم کورٹ کو۔

ماہرِ قانون ایڈووکیٹ آصف محمود کے مطابق ’آئین میں صرف وفاقی شرعی عدالت کو از خود نوٹس کا واضح اختیار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے بارے میں صریح الفاظ میں یہ بات آئین میں کہیں نہیں لکھی، سپریم کورٹ نے خود ہی 3/184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار حاصل کر لیا ہے جبکہ اس شق میں بھی ’سپریم کورٹ‘ کا لفظ لکھا گیا ہے، چیف جسٹس کا نہیں۔

از خود نوٹس کی ابتدا کیسے ہوئی؟

اس حوالے سے شفا تعمیرِ ملت یونیورسٹی میں شعبہ شریعہ اور قانون کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے کہا کہ پاکستانی تاریخ کے ابتدائی عشروں میں فوجی حکومتیں رہیںاور عدلیہ زیادہ تر بیک فٹ پر ہی رہی، عدلیہ کی اہمیت کو پہلی بار 90 کی دہائی میں اس وقت کے چیف جسٹس افضل ظلہ نے اجاگر کیا، انہوں نے قراردادِ مقاصد کو بنیاد بنا کر قرار دیا کہ عدلیہ خود مختار ہو گی۔

مزید یہ کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے استدلال دیا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس صرف ایک عدالت کا سربراہ نہیں بلکہ پورے ملک کا چیف جسٹس ہے، یہیں سے سوو موٹو لینے کے رجحان کی راہ ہموار ہوئی۔