لاہور: (مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی) اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی شفقت اور رحم کا معاملہ کرنا چاہئے اور ظلم سے باز رہنا چاہئے، اسلام کے جامع مذہب ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے جانوروں کے حقوق بھی بیان کر دیئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ایک دفعہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے (صحیح بخاری: 5009 صحیح مسلم : 2244)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک جسم فروش عورت نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا اور پیاس کی شدت سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، اس عورت نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی (صحیح مسلم:154۔2245)۔
کھلانا پلانا باعث اجر: ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کیلئے حوض میں پانی بھرتا ہوں اور دوسرے کا اونٹ آ کر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا؟۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، اور سنو! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا باعث اجر ہے۔(ابن ماجہ:3686، مسند احمد: 7075)
چرند پرند کو دانہ ڈالنا صدقہ: آدمی جو کھیتی کرتا ہے یا باغ لگاتا ہے اور اس کی کھیتی اور درخت سے کوئی جانور، یا پرندہ کچھ کھا لیتا ہے، یا چگ لیتا ہے تو اس میں بھی مالک کو ثواب ملتا ہے، خواہ صاحبِ کھیت اور درخت والے کو اس کا علم نہ ہو۔ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔(صحیح بخاری: 2320، صحیح مسلم : 1553)
حیوانات کو تکلیف دینا گناہ: شریعت نے جہاں حیوان کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کو عبادتوں میں سے شمار کیا ہے، وہیں حیوان کے ساتھ برا سلوک، بلا وجہ اس کو تکلیف و عذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت میں سے گردانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ بھوکی پیاسی مر گئی، اس لئے وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا جب اس نے اس کو قید کیا اور نہ ہی اس نے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر اپنی جان بچاتی (صحیح بخاری:2482)
جانوروں کو تکلیف دینا حرام: اسلام نے جانور اور حیوان کو تکلیف دینا حرام قرار دیا ہے، مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺکا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کر کے داغا گیا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپائے کے چہرے کو داغے، یا اس کے چہرے پر مارے؟ پس آپﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابودائود: 2564)۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جانور کو مثلہ کرے، یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دم وغیرہ) کاٹے (صحیح بخاری: 5515، باب ما یکرہ من المثلۃ)۔
جانوروں پر تیر چلانا: اسلام نے جانور کو قید کر کے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اور اس کو تیر یا گولی سے نشانہ بنایا جائے، یہاں تک کہ وہ مر جائے، اس لیے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ایسی چیز کو نشانہ مت بناؤ جس میں روح اور جان ہو (صحیح مسلم: 58، ترمذی :1475)۔
جانوروں کو لڑانے کی ممانعت: ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا دینا لازم آئے شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے۔ جیسے دو بیلوں یا سانڈوں کو آپس میں لڑانا، مرغا یا مینڈھا کو آپس میں لڑانا، پرندوں کو بلا فائدہ قید کر کے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعہ جانور کو ذبح کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد:2562، ترمذی: 1708)۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’جانوروں کے حقوق‘‘ میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مرغ بازی، بیٹر بازی اور مینڈھے لڑوانا، اسی طرح کسی جانور کو لڑانا سب اس میں داخل ہے اور سب حرام ہے۔ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے۔ گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اور مقابلہ کے اس میں کوئی مصلحت نہیں اور گھوڑ دوڑ وغیرہ جبکہ اس میں جوا نہ ہو اس سے مستثنی ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔ (ارشاد الہائم فی حقوق البہائم:19)
جانور کو مار کر پھینک دینا درست نہیں: جانور کو قتل کر کے یوں ہی پھینک دینا، اس سے فائدہ حاصل نہ کرنا، اس کو کام میں نہ لانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذبح کو جائز قرار دیا ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے چڑیا یا کسی بھی جانور کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا۔
کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہﷺ! اس کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کر کے کھائو، نہ یہ کہ اس کا سرکاٹ کر اسے پھینک دو(نسائی: 4445)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی چڑیا کو بلا فائدہ قتل کیا، وہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ سے فریاد کرے گی کہ اے اللہ! اس نے مجھے بیکار قتل کیا اور مجھے فائدے کیلئے قتل نہیں کیا(نسائی: 4446، مسند احمد: 19470)۔
پرندے کو قید کر کے رکھنا گناہ: بلافائدہ کسی پرندے کو پریشان کرنا اور اس کے بچوں کو قید کرنا اور پکڑ کر رکھنا بھی درست نہیں ہے۔ حدیث میں ہے، صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، حضورﷺ قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے، اسی اثناء میں ہم نے ایک پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں پر اپنے پروں کو پھیلانے لگا، اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کس نے اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کیا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹا دو۔ (ابو دائود: 2675)
جانوروں کو ذبح کرنے میں احتیاط: اللہ تعالیٰ نے بعض جانوروں کو ذبح کر کے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے جانوروں کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے لیکن اس میں بے راہ روی اور ظلم وزیادتی ناروا اور غیردرست ہے۔
ذبح کے سلسلے میں چند فرمانِ رسول اور آداب ملاحظہ فرمائیں: نبی کریمﷺ نے ذبح کے چند آداب بیان فرمائے ہیں۔
(1)اچھی طرح ذبح کرے۔
(2) ذبح سے پہلے چھری تیز کر لے۔
(3) ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔
(4)قربانی کیلئے جانور کو گھسیٹ کر مت لیجاؤ، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بکری کو ذبح کرنے کیلئے اس کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا تو انہوں نے اس سے فرمایا: اس کو موت کیلئے لے جاؤ اچھے طریقے سے (رواہ عبدالرزاق، باب سنۃ الذبح، حدیث: 8605)۔
(5)ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔
(6) ذبح کرنے والاجانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
(7) ذبح کیلئے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔
چارہ کھلانا اور پانی پلانا جانور کا حق: جانور پر سواری اور بار برداری انسان کا حق ہے لیکن اس بارے میں بھی شریعت میں ہدایات موجود ہیں، جیسے جانور کو چارہ کھلا کر سواری کرنا، جانور کی قدرت و طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، مار پیٹ نہ کرنا۔
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے توایک اونٹ نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: میرا ہے، آپﷺ نے فرمایا: کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے، جن کا اللہ نے تم کو مالک بنایا ہے، اس(اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس سے مسلسل کام لیتے ہو (ابو داؤد:2549)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواریوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں کھڑی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا: چوپایوں پر سواری کرو اور سواری کر کے انہیں چھوڑو، ان کو اپنی باتوں کیلئے راستوں اور بازاروں میں کرسیاں مت بناؤ (ان کو کھڑا کر کے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی لمبی باتیں نہ کرو(مسند احمد: 15629)۔
زیادہ بوجھ لادنا جائز نہیں: جانور پر اتنا بوجھ لادنا جس کی وہ قدرت وطاقت نہ رکھتا ہو جائز نہیں ہے، جو آدمی جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادے گا روزِ قیامت اس سے حساب لیا جائے گا، حضرت ابودردائؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کا ایک اونٹ تھا جس کا نام دمون تھا، وہ اس اونٹ کو مخاطب کر کے کہتے تھے: اے دمون! قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے مجھ سے مخاصمت مت کرنا، اس لیے کہ میں نے تجھ پر تیری قدرت و طاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں لادا (تفسیر قرطبی، سورہ نحل: آیت:8۔10)
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی خطیب اور مختلف مدارس میں مہتمم کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے مرکزی صدر ہیں۔