بابل…. تاریخِ انسانی کا پہلا میٹروپولیٹن شہر

Published On 24 July,2023 10:32 am

لاہور: (خاور نیازی) بابل تاریخِ انسانی کا پہلا منظم اور مستحکم شہر تھا، اگر دور جدید کے ساتھ اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ بابل شہر دنیا کا پہلا ’’میٹروپولیٹن شہر‘‘ تھا۔

بابل یا بابیلونیا، میسو پو ٹیمیا (جسکا موجودہ نام عراق ہے) کا ایک قدیم شہر تھا، جس نے اپنے قیام کے بعد سے بہت سارے عروج و زوال دیکھے ہیں، یہ شہر سلطنت بابل اور سلطنت کلدانی کا دارالحکومت بھی تھا جو موجودہ بغداد سے لگ بھگ 100 کلومیٹر بجانب جنوب دریائے فراط کے کنارے آباد ہوا کرتا تھا، یہ اپنے دور کا سب سے بڑا اور سب سے خوبصوت شہر ہوا کرتا تھا، اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ یہ اپنے دور کا 2 لاکھ آبادی کا دنیا کا پہلا سب سے بڑا شہر تھا، اس شہر کا ذکر 4 ہزار سال قبل مسیح کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔

تورات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام بابل میں رہتے تھے، جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو حضرت آدمؑ اس سے ناراض ہوئے تو قابیل اپنے اہل وعیال سمیت بھاگ کر ارض بابل کے پہاڑوں میں چلا گیا، چنانچہ اس دن سے اس جگہ کو بابل کہا جانے لگا جس کے معنی جدائی، علیحدگی یا فرقت کے ہیں، پھر جب حضرت ادریسؑ نبی معبوث ہوئے اور دوسری طرف قابیل کی اولاد بڑھ گئی تو پہاڑوں سے نیچے اتر آئی اور دنگا فساد پر اتر آئی۔

اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوگئے تو حضرت ادریسؑ نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایسی سر زمین عطا فرما جس میں ارض بابل کی طرح دریا بہتا ہو، تب انہیں مصر میں منتقل ہونے کا حکم ہوا، چنانچہ جب وہ مصر پہنچے تو انہوں نے مصر کے ماحول کو زندگی کے موافق اور خوشگوار پایا تو انہوں نے اس مقام کا نام بابل سے ملتا جلتا ’’ بابیلون ‘‘ رکھا جس کے معنی اچھی جدائی یا اچھی فرقت کے ہیں۔

سلطنت بابل یا بابیلونیا بنیادی طور پر دو سلطنتوں یعنی قدیم بابیلونیا اور نیا بابیلونیا کا نام ہے، قدیم بابیلونیا کا بانی حمورابی تھا، جب 1750 قبل مسیح میں حمورابی نے اسے اپنا پایہء تخت بنایا تواس وقت یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہر تھا جسے دوسری مملکتوں کے لوگ رشک کی نظروں سے دیکھنے آتے تھے۔

جبکہ نیا بابیلونیا کو کلدانی سلطنت کا نام دیا گیا تھا، اسے چھٹی صدی قبل مسیح میں شاہ نیبو پولسار نے اشوری سلطنت کے کھنڈرات پر قائم کیا تھا لیکن اسے شاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے بعد ازاں عروج بخشا، 689 قبل مسیح بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا، پرانا شہر چونکہ دریائے فرات کے مشرقی کنارے آباد تھا اس لئے بخت نصر نے دریائے فرات پر ایک پل تعمیر کرا کر مغربی شہر کے ایک وسیع حصے کو بھی بابل شہر کا حصہ بنا ڈالا، اب بابل ایک وسیع وعریض شہر بن چکا تھا جس کی آبادی 5 لاکھ تک پہنچ تھی۔

یوں تو ترقی کے حوالے سے بخت نصر کے کارناموں کی فہرست کافی طویل ہے لیکن آج سے لگ بھگ 2500 سال قبل بابل کے معلق باغات جنہیں قدیم دنیا کے 7 عجائبات عالم میں بھی شامل کیا جا چکا ہے ایک ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک تاریخ کی کتابوں میں زندہ رہے گا، یہ معلق باغات ایک روایت کے مطابق بخت نصر نے اپنی ملکہ کی خوشنودی کی خاطر بنوائے تھے، کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں دوسری صدی قبل مسیح میں یہ باغات ایک تباہ کن زلزلے کی نذر ہو کر نیست و نابود ہوگئے۔

برلن کے پرگیمن میوزیم میں محفوظ بخت نصر دور کا ایک کتبہ اب بھی محفوظ ہے جس میں بخت نصر کی زبان میں درج ہے ’’ ہم نے ان عجائبات کو نیلے پتھر والی اینٹوں سے بنوایا تھا جن پر شاندار بیل اور ڈریگن منقش کئے گئے ہیں، میں نے ان پر شاہی دیودار بچھاتے ہوئے ان کی چھتوں کا احاطہ کیا، میں نے پیتل سے مزین دیوار کی لکڑی کے دروازے بنوائے، میں نے راستوں میں جنگلی بیلوں اور خوفناک اڑنے والے پردار اژدھوں کے مجسمے بنوائے اور انہیں اس پرتعیش شان سے آراستہ کیا کہ بنی نوانسان کی نگاہیں ان کو دیکھیں تو حیرت سے مبہوت ہو جائیں‘‘۔

جہاں تک بخت نصر کے کردار کی بات ہے اس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ تاریخ میں وہ ایک ظالم حکمران کی شہرت سے جانا جاتا تھا، تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں جب بنی اسرائیل کی سر کشی، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر گئیں تو قوم عمالقہ کا یہ ظالم بادشاہ بابل سے ایک بڑی فوج لے کر آندھی اور طوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا۔

تھوڑے ہی عرصے میں اس نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، 40 ہزار سے زائد علماء کو قتل کر دیا یہاں تک کہ کوئی ایک بھی عالم زندہ نہ بچا، بخت نصر بنی اسرائیل کے 80 ہزار سے زیادہ افراد کو قیدی بنا کر ساتھ بابل لے گیا، صرف یہی نہیں بلکہ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو راتوں رات کھنڈرات میں بدل دیا۔

بابل کا زوال
بابل لگ بھگ 200 سال تک تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے، یہ اپنے دور کا ایک ’’شہر بے مثال’’تھا، یہ اس لحاظ سے بھی دنیا کا پہلا شہر تھا جس کا اپنا باقاعدہ تحریری آئین تھا جو 200 قوانین کا احاطہ کرتا تھا، یہ قوانین بعدازاں کھدائی کے دوران مٹی کی تختیوں پر کنندہ صورت میں ملے تھے، جبکہ سرکاری عمارات کے ستونوں پر بھی آئین کے بعض قوانین کنندہ کئے ہوئے تھے۔

کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اپنے زمانے کا ایک حیرت انگیز شہر جو اس قدر منظم اور مستحکم ہوا کرتا تھا کہ ماہرین اسے دنیا کا پہلا میٹروپولیٹن سٹی بھی کہتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا پہلا منظم اور مستحکم ترقی یافتہ شہر آخر اتنی تیزی سے زوال پذیر کیوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھنڈرات میں بدل گیا۔

بخت نصر اعلیٰ درجے کا منتظم حکمران تھا جس نے 17 سال تک بابل پر حکمرانی کی، یہ بخت نصر ہی تھا جس نے زمانہء قدیم میں بھی ایسی اصلاحات کیں جن کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، بخت نصر کے بعد آنے والے نہ تو اچھے منتظم اور نہ ہی اچھے حکمران ثابت ہوئے تھے جس کی وجہ سے ملک کی بنیادیں کمزور ہونا شروع ہوگئیں۔

بابل کی تباہی میں دریائے فرات کا کردار بھی ہے، کیونکہ دریائے فرات کا ساحل جو قدیم زمانے سے ایک بندرگاہ کا کردار ادا کر رہا تھا جس کی وجہ سے بابل دنیا بھر کی تجارت کا مرکز سمجھا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اردگرد ملکوں کی تجارتی ترجیحات بدلتی چلی گئیں اور یوں بابل کی کاروباری رونقیں ماند پڑنا شروع ہوئیں تو بابل کی معیشت ڈگمگانے لگی۔

خاور نیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔