اسلام آباد: (الماس حیدر نقوی) پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر آدم ایم ٹوگیو نے کہا ہے کہ پاکستان انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کو اپنے جیٹ فائٹرزکی فروخت کا خواہاں ہے اور اس حوالے سے انڈونیشیا جائزہ رہاہے ۔
پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر آدم ایم ٹوگیو نے دنیا نیوز کو خصوصی خصوصی انٹرویو میں کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان دوطرفہ تعلقات سیاسی ، سکیوریٹی ، اقتصادی،سماجی اور ثقافتی سطح پر محیط ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، ثقافت ، سیاحت، تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی ،ماحولیات، دفاع کے شعبوں میں تعلقات کو بڑھانے کیلئے بے تحاشا امکانات موجود ہیں،پاک انڈونیشیا ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کے بعد دوطرفہ تجارتی حجم میں تین گنااضافہ ہواہے۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ بنیادوں پر تجارت کا حجم 4.2ار ب ڈالر پہنچ چکا ہے ، تجارت تنوع ایک اہم مسئلہ ہے ، پاکستان تزویراتی طو رپر بہت اہم ملک ہے، پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں خطے میں ایک گیٹ وے ہے، پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان دہشتگردی اور شدت پسند ی کے خاتمے کیلئے بھی تعاون موجود ہے، انڈونیشیا کی کمپنیاں سی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں، انڈونیشیا کی جانب سےاس سال 170سکارلرشپس پاکستانی طلبہ کو فراہم کی گئیں ہیں ، جو ہر گزر تے سال بڑھ رہی ہیں ۔
انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر آدم ایم ٹوگیو نے کہا ہے کہ ہمارے اجداد، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح اور انڈونیشیا کے لیڈر ڈاکٹر احمد سکارنو نے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تعلقات کی بہت اچھی بنیادیں رکھی، ہم ان دوطرفہ تعلقات کی بنیادوں کو مزید وسیع کرنے کیلئے کوشاں ہیں، پاکستان اور انڈونیشیاکے درمیان دوطرفہ تعلقات سیاست ، سکیوریٹی ، اقتصادی،سماجی اور ثقافتی سطح پر محیط ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات مظبو ط سے مظبوط تر ہوتے جار رہے ہیں ۔
آدم ایم ٹوگیونے کہا کہ ایک صدر کے علاوہ انڈونیشیا کے تمام صدور نے پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔گذشتہ تین سالوں میں سیاسی سطح پر تعلقات میں بہتری آئی ہے ، انڈونیشیا کے وزیر خارجہ نے افغانستان پر ہونیوالے او آئی سی کے اجلاسوں میں شرکت کی ، بعد ازاں انڈونیشیا سے وفود نے پاکستان کادورہ کیا ہے اسی طرح پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹونے بھی گذشتہ سال انڈونیشیا کا دورہ کیا ہے ،جس میں دوطرفہ سیاسی امور پر تبادلہ خیال ہوااور مشترکہ وزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی جو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے دوطرفہ امور کو زیر بحث لاتے ہوئے دونوں ممالک کو تزویراتی سمت کا تعین کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے، پاکستان کے سپیکر نے گذشتہ سال جکارتہ کادورہ کیا، آئندہ سالوں میں سیاسی مشاورت کے حوالے سے روابط میں مزید اضافہ ہوگا۔
انڈونیشیا کے سفیر آدم ایم ٹوگیو نے کہا ہے کہ اقتصادی سفارتکاری میر ی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے ، دونوں ممالک میں دوطرفہ تجارت بڑھانے کیلئے بے تحاشا مواقع موجود ہیں، اگر اعدادو شمار کو دیکھا جائے توپاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدے کے بعد دوطرفہ تجارتی حجم میں تین گنا تک اضافہ ہواہے ، سالانہ بنیادوں پر تجارت کا حجم 4.2ار ب ڈالر پہنچ چکا ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ تجارت میں مثبت رجحان ہے ، خصوصی طور پر جب ہم اس کا موازنہ 2013 میں طے پانےوالے ترجیحی تجارتی معاہد ے سے پہلے کی صورتحال سے جائزہ لیں جب تجارتی حجم 1.3 ارب ڈالر تھاجو مسلسل بڑھتا رہا ہے ، تجارت میں تنو ع ایک بڑا چیلنج ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تجارت ہونے والی مصنوعات محدود ہیں ، 75فیصد انڈونیشیا سے پاکستان پام آئل درآمد کیا جاتاہے جس کے بعد 7فیصد کوئلہ انڈونیشیا سے پاکستان آتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان سے انڈونیشیا برآمدی مصنوعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ٹیکسٹائل ، لیدر مصنوعات کا حجم زیادہ ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے بعد گلوبل سپلائی چین اہم مسئلہ ہے ، مخصو ص ممالک ، خصوصی مصنوعات کی ترویج کیلئے کام کرتے ہیں، پاکستان اور انڈونیشیا کیوں ایسی مصنوعات کے حوالے سے تعاون نہیں کرتے جہاں ہم ایک دوسرے کی سپورٹ کر سکتے ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کےساتھ مسابقت کے بجائے ان مصنوعات میں دوسرے کو سپورٹ کریں تاکہ دونوں کو فائدہ ہو۔
آدم ایم ٹوگیونے کہا کہ پاکستان دنیا کی بہترین ٹیکسٹائل اور گارمنٹس بناتا ہے اور پاکستان اس کیلئےخام مال خصوصی طو رپر کاٹن اور پولیسٹر دنیا سے برآمد کرتا ہے ، ہم پولیسٹر ز بناتے ہیں،ہمیں ملکر کام کرنا چاہیے ، خام مال انڈونیشیا سے منگوایا جاسکتاہے ، جس سےانڈونیشیا اورپاکستان میں منصوعات بناکر ایکسپورٹ کی جاسکتی ہیں ، پاکستان مصالحہ جات کی تجارت میں لیڈ کرسکتا ہے، مصالحہ جات کے اجرائے ترکیبی انڈونیشیا سے برآمد کئے جاسکتے ہیں ۔
انڈونیشیا کے سفیر کا کہنا تھا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں او آئی سی میں پیچھے ہیں ۔ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں آگے ہے ، انڈونیشیا میں ویکسین کی تیار ی میں مہارت رکھتاہے اس حوالے سے کامسٹیس کے پلیٹ فارم پر ہم تعاون کرنے میں، تیار ہیں، پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ،دفاعی شعبے میں تعاون کے امکانات موجود ہیں ، پاکستان انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کو اپنے جیٹ فائٹرز کی فروخت کا خواہاں ہے اور اس حوالے سے انڈونیشیا جائزہ رہاہے ،انڈونیشیا ، جنوبی کوریہ کے ساتھ ملکر جیٹ بنا رہا ہے ممکن ہےکہ کل کو پاکستان کے ساتھ ملکر جیٹ فائٹرز کی تیاری پر کام کریں۔
انڈونیشیاکے سفیر کا کہناتھاکہ سی پیک تجارتی روابط کا اہم منصوبہ ہے ، سی پیک کے ذریعے نہ صرف انفر اسٹکچر تعمیر کیا جارہاہے بلکہ سماجی ترقی پر بھی کام ہورہاہے ۔انڈونیشیا کی کمپنیاںسی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی رکھتی ہیں ، دو کمپنیوں نے فیصل آباد اور سندھ میں اپنے کارخانے پاکستان لگائے ہیں ، انڈونیشیا کا کاروباری طبقہ جب پاکستانی نقشے کو ملاحظہ کرتے ہیں تو وسطی ایشیائی ممالک اور خطے میں رسائی کیلئے پاکستان کو اہم ملک سمجھتے ہیں، ہم انڈونیشیا میں متعدد چیمبر ز آف کامرس کے ساتھ مشغول ہیں ،کئی انڈونیشیا کی کمپنیاں سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز میں سر مایہ کاری کیلئے غور کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آسیان کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا ہے ،انڈونیشیا آسیا ن تنظیم میں مکمل ڈائیلاگ پارٹنر کے طور بننے کی پوری حمایت کریگا۔پاکستان آسیان کے ساتھ اپنی مشغولیت دو طرح سے بڑھا سکتا ہے ، ایک آسیا ن سکریٹریٹ کے ساتھ مشغولیت اور دوسرا آسیا ن ممالک کےساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو بڑھاسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو دہشتگردی اور شدت پسندی کا سامنا ہے ، پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان دہشتگردی اور شدت پسند ی کے خاتمے کیلئے بھی تعاون موجود ہے ۔ انڈونیشیاکی انسداد دہشتگردی کے ادارے اور نیکٹا کے درمیان تعاون موجود ہیں ،ہم ایک دوسرے کی استعداد کار کو بڑھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان طلبہ کی جانب سے اس سال ایک ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہیں ، جس میں پاکستانی طلبہ نے سب سے زائد اسکارلرشپس حاصل کی ہیں ۔
انڈونیشیا سفیر کا کہناتھاکہ پاکستانی طلبہ کی جانب سے مشرقی ایشیا میں تعلیم کیلئے رجحان بڑھ رہاہے،گذشتہ تین سالوں پاکستانی طلبہ اسکارلرشپس حاصل کرنے میں سرفہرست رہے ہیں، انڈونیشیا کی جانب سےاس سال 170سکارلرشپس پاکستانی طلبہ کو فراہم کی گئیں ہیں جو گذشتہ سال 70کے مقابلے میں 100 اسکالر شپس کا اضافہ ہے ۔ انڈونیشیا کی جانب سے تین طریقوں سےاسکالر شپس فراہم کی جاتیں ہیں، نمبر ون انڈونیشیا حکومت سکالر شپس فراہم کرتیں ہیں جس کے تحت تمام اخراجات انڈونیشیا کی حکومت برداشت کرتی ہے، نمبر دو یونیورسٹیوں کی جانب سے اسکارلرشپ فراہم کی جاتیں ہیں ، نمبر تین فلاحی اداروں کی جانب سے بھی اسکارلر شپس فراہم کی جارہی ہیں ۔ پاکستان طلبہ کیلئے انڈونیشیا میں متعددمواقع موجود ہیں، پاکستان میں انڈو نیشیا کے سفارتخارنے کی جانب سے نیشنل بک فائونڈیشن میں ’’انڈونیشیا کانر ‘‘کا افتتاح کیا جارہا ہے جہاں پاکستانیوں کو انڈونیشیا سے متعلق ہر ممکن معلومات فراہم کی جائیں گی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہم چیلنجنگ وقت دیکھ رہے ہیں ، خصوصی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ،پاکستان میں بھی سیلاب نے بڑی تباہی مچائی ہے ،ہم پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں پاکستان کے اقدام سے طویل عرصے سے ’’لاس اینڈ ڈیمج ‘‘ کے حوالے معاملہ ڈیڈک کا شکار تھا، پاکستان کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے لاس اینڈ ڈیمج کا میکنیزم ممکن ہوا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالےسے پاکستان اور انڈونیشیا دوطرفہ اور کثیر الجہتی فورم پر ملکر کرکام کرسکتے ہیں، ہم ایک دوسرے ملک کے قدرتی وسائل سے بھی استعفادہ کرسکتے ہیںدونوں ممالک میں قابل تجدید توانائی کیلئے موزوں وسائل موجود ہیں، اس حوالے سے بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کرسکتے ہیں، ہم ملٹی لیٹر ازم ، فلسطینیوں کے حقوق اور پیس کیپنگ کے حوالے سے ملکر بھی کام کرسکتے ہیں،پاکستان پیس کیپنگ کے حوالے سے کانفرنس منعقد کر رہا ہے، دنیا کے 60 فیصد تنازعات اسلامی تعان تنظیم کی حدود میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ثقافتی سطح پر بھی تعلقات میں اضافہ ہو اہے اب پاکستان سے زیادہ سے زیادہ لوگ انڈونیشیا نہ صرف بالی جاتے ہیں بلکہ دیگر شہروں میں سیاحت کیلئے جاتے ہیں ۔