لاہور: (دنیا نیوز) سیاسی منظر نامے پر بڑا اتحاد قائم ہوگیا، پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان نے اگلا الیکشن ملکر لڑنے کا اعلان کر دیا۔
ایم کیو ایم وفد نے ن لیگی قیادت سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئندہ الیکشن ملکر لڑنے کا اعلان کیا۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے وفد کی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے آپس میں مذاکرات کیے تو اس وقت بھی ہم نے ایک چارٹر پر دستخط کیے تھے اور ایک بڑی انڈرسٹینڈنگ موجود رہی ہے۔
چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد ضروری ہے: سعد رفیق
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان یہ خواہش بھی موجود رہی ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں مل کر حصہ لیں، یہ بھی طے پایا ہے کہ مختلف قومی امور پر معاشی امور پر، سیاسی معاملات پر، آئینی اور قانونی معاملات پر بھی آپس میں مشاورت بھی کی جائے گی اور اس ضمن میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان بھی کیا جائے گا اور باقی سیاسی قوتوں سے بھی لارجر قومی مفاد میں اور مختلف امور پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے اور بات چیت کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح یہ اعلان آپ پہلے سن چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشورے کے بعد بشیر میمن صاحب کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کا نیا صدر نامزد کیا ہے اور شاہ محمد شاہ صاحب کو مرکزی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔
پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی مجموعی صورتحال خاص طور پر جو سیاسی اور معاشی حالات کے بحران اور چیلنجز ہیں اس کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟
صرف الیکشن لڑنا مقصد نہیں، ملک کو مشکلات سے بھی نکالنا ہے: فاروق ستار
انہوں نے کہا کہ صرف انتخابات لڑنا ہی نہیں ہے، انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی، جو پارلیمان قائم ہوگی ، اسمبلیاں بنے گی ان کے لیے جو چیلنجز ہیں کیا ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ابھی سے کوئی پیشرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیا ابھی سے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کر کے جو بنیادی مسائل ہیں پاکستان کی عوام کے ، چاہے وہ مہنگائی سے متعلق ہوں، بے روزگاری سے متعلق ہوں ، چاہے وہ مسائل غربت سے متعلق ہوں یعنی جو معیشت کے سنگین مسائل ہیں ان کے حل کے لیے جو چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کیسے کریں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ملک کے جملہ مسائل اور جو عوام کے جن مسائل میں پسے ہوئے ہیں ان سے ان کو باہر نکال سکے تو ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت اور اشتراک عمل قائم کرنا ہے۔ چنانچہ ہمارے درمیان تو یہ طے ہوگیا کہ یہ اشتراک عمل گویا کہ جو سیاسی ، معاشی، آئینی اصلاحات کے معاملات ہیں ان پر بھی ہمیں تبادلہ خیال کرنا ہے اور ایک چارٹر تیار کرنا ہے جس کے لیے کمیٹی 3،3 ارکان پر مشتمل ہوگی ایم کیو ایم پاکستان کے ن لیگ کے تین۔
فاروق ستار نے کہا کہ جو مشترکہ حکمت عملی کی بات ہوئی ہے تو انتخابات میں بھی مشترکہ حکمت عملی کی جائے گی ، مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور اگر ہم ایک چارٹر تیار کر لیتے ہیں تو قومی اتفاق رائے کے لیے باقی ہم خیال جماعتیں ہیں اور جو ہم خیال نہیں ہیں ان کو بھی سمجھانا ہے کہ وقت کے تقاضے کو سمجھو ، جو حالات کا جبر ہے وہ کیا کہہ رہا ہے ، ہماری سیاسی، اخلاقی، قومی، آئینی ذمہ داری کیا ہے ، ہم اس کو سمجھیں اور ہم ایک مشترکہ قومی اتفاق رائے اختیار کریں تاکہ آنے والی جو حکومت ہے اور جو اپوزیشن ہے ان دونوں کے لیے آگے کے راستے آسان ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت میں ہم یہ کام کرتے ہیں تو شاید پاکستان کی عوام کو ساری جماعتیں ایک بہت بڑا اعتماد دینے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
ملاقات میں کوئی ذاتی ایجنڈا زیر بحث نہیں آیا: مصطفی کمال
مصطفی کمال نے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سیدھی بات کرتا ہوں آپ سے کہ پاکستان اس وقت ٹھیک نہیں ہے ، پاکستان کی پوزیشن ایسی ہے کہ روزانہ آپ ایک بری خبر سنتے ہیں ، دنیا تجزیئے کر رہی ہے تو یہ کوئی آئیڈیل حالات تو نہیں ہیں آج اس بحران میں، میں ماضی کی بات نہیں کر رہا کہ کون لے کر گیا کیسے لے کر گیا، اس کو نکالنا کیسے ہے ؟ اس کو کسی مضبوط لیڈرشپ نے نکالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر انتخابات میں اتحاد اب اس بات پر نہیں ہوگا کہ کس کے پاس کیا وزارت جانی ہے، اس کا موقع ہی نہیں آنا، پاکستان کے مسائل اتنے گہرے ہوگئے ہیں کہ اگر ہم نے لوگوں کو ان مسائل سے باہر نکالنے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا، اس پر عمل نہیں کیا تو ہم سب لوگوں کی شاید یہ آخری باری ہو عجیب صورتحال ہوگی۔
مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ہم سندھ کے بڑے شہر کراچی سے آئے ہیں، کراچی شہر کا چالیس سالہ مینڈیٹ ہے چالیس فیصد ریونیو دیتا ہے، اگر مسائل کا حل ہے تو اس کا حصہ دے کر ہی ہے، نوازشریف نے باتوں کو سنا کوئی لین دین نہیں ملک کی بات کی ہے، ملاقات میں کوئی ذاتی ایجنڈا زیر بحث نہیں آیا، ملکی اتحاد کی بات کی گئی، بیس سے سترہ والی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں، ہم پورا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔