اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) 8 فروری کو عوام نے پاکستانی سیاسی نظام کی چولیں ہلا دیں، خاموش ووٹر نے اپنا فیصلہ سنایا تو ملک کی بڑی سروے کمپنیوں کے سروے، سیاسی جماعتوں کے اندازے، دعوے اور سیاسی پنڈتوں کے تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے جو پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی کمزور حکومت سے بھی کمزور ترین دکھائی دیتی ہے، پی ڈی ایم سیزن 2 ایسی پروڈکشن ہے جس کا پہلا سیزن خود اس کے کرداروں کے مطابق بھی ناکام ہو گیا تھا اور وہ خود کہتے تھے کہ سولہ ماہ کی حکومت دراصل ایک مجبوری کی حکومت تھی اور انتخابی مہم کے دوران اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، پی ڈی ایم سیزن 2 میں کرداروں کی تعداد ایک درجن سے کم ہو کر چھ تک پہنچ چکی ہے اور اس کا سب سے اہم شراکت دار، پاکستان پیپلز پارٹی نئی حکومت کے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔
موجودہ انتخابات میں سب سے بڑا سیاسی نقصان پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ہوا جو نہ تو انتخابی نتائج کو شکست کہہ پا رہی ہے نہ ہی فتح، اسے اقتدار میں آنے کیلئے اپنا وہ ماڈل تبدیل کرنا پڑگیا جو عوام کو بتا کر الیکشن لڑا، پنجاب میں رانا ثنا اللہ ، خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر سمیت کئی بڑے نام شکست سے دوچار ہوئے اور جیتنے والے بیشتر بڑے ناموں کے کامیاب نتائج عدالتی فیصلوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے پوری انتخابی مہم ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ کا نعرہ لگا کر کی اور میاں نواز شریف کو ہی آئندہ وزیر اعظم کا مضبوط ترین امیدوار قرار دیا، (ن) لیگ بڑے دھڑلے سے یہ بات کہتی تھی کہ ساڈی گل ہو گئی اے یعنی مقتدرہ کے ساتھ طے ہو چکا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے، میاں نواز شریف پولنگ ڈے یعنی 8 فروری کو یہ کہتے دکھائی دیئے کہ مخلوط حکومت نہیں بلکہ سادہ اکثریت کی حکومت ملنی چاہئے۔
پولنگ ڈے کو انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے گھر لوٹنے والے میاں نواز شریف کو 9 فروری کو ایسے حالات میں خطاب کرنا پڑا جب انہیں اور ان کی جماعت کو اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ حقیقت میں نہ تو وہ اکثریت میں ہیں نہ ہی کوئی بھی مضبوط حکومت قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی مقتدرہ سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ لینے سے انکار کرتے ہوئے خود کو منظر عام سے دور کر لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نہ تو اس حالت میں ہے کہ حکومت لینے سے انکار کرے اور نہ اس حالت میں کہ خو شی خوشی حکومت قبول کرتے ہوئے کامیابی کا جشن منائے۔
ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ پی ڈی ایم کے دو بڑے اور انتہائی اہم اتحادی اس کے ساتھ حکومت میں بیٹھنے کو تیار نہیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف (ن) لیگ کے وزیر اعظم کو ووٹ دے گی، وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی ایک تگڑی اپوزیشن کے طور پر موجود ہوگی، درحقیقت سب کو غیر مقبول فیصلوں اور مشکل سیاسی حالات کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں۔
نئی بننے والی حکومت کو حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھنا ہے، اپریل 2022ء میں بننے والی حکومت کے تلخ معاشی فیصلوں کی اونرشپ تو پی ڈی ایم نے مجموعی طور پر لی تھی مگر اس مرتبہ ہونے والے غیر مقبول فیصلوں کا بوجھ اکیلی (ن) لیگ کو اٹھانا ہوگا، آئی ایم ایف کی شرائط پر اربوں روپے کے نئے ٹیکسز، مزید مہنگی بجلی اور گیس سے متعلق فیصلے زیادہ دور نہیں بلکہ حکومت بننے کے چند ہفتوں بعد ہی کرنا ہوں گے۔
انتخابی نتائج کے بعد میاں نواز شریف کے حامیوں نے یہ بیانیہ بنانا شرو ع کر دیا ہے کہ دراصل میاں نواز شریف کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے، ان کا خیال ہے کہ شاید مقتدرہ یہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنیں، حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی، درحقیقت انتخابی میدان میں اترتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ سوچ اُسے لے ڈوبی کہ جو کرنا ہے مقتدرہ اور انتظامیہ نے کرنا ہے، اس نے صرف اقتدار کے ایوان میں پہنچنا ہے، مولانا فضل الرحمان کا مقتدرہ کے ساتھ شکوہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، دونوں جماعتوں نے اپنا سیاسی ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا۔
8 فروری کے طوفان کے چھ روز گزرنے کے بعد اب گرد بیٹھی ہے تو سیاسی منظر نامہ قدرے واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے، یہ طے ہو چکا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ نمبرز حاصل کرنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھے گی، شہباز شریف مارچ کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیں گے، مگر اب یہ سوال زبان زد عام ہے کہ یہ حکومت کب تک اور کیسے چل پائے گی؟ کئی حلقوں کے نتائج الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوں گے، اگر تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کے فارم 45 درست نکلے تو یہ کئی بڑے ناموں کو ایوانوں سے باہر کروا سکتے ہیں۔
عالمی میڈیا پاکستان کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر مسلسل جارحانہ رپورٹنگ کر رہا ہے، امریکا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک آئے روز ایسے بیانات دے رہے ہیں جو تحریک انصاف کے مؤقف کے حق میں ہیں، (ن) لیگ کے اپنے اتحادی وزیر اعظم کو ووٹ دے کر کابینہ میں بیٹھنے سے کترا رہے ہیں، مہنگی ترین بجلی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے بعد عوامی رد عمل اور پارلیمنٹ میں ایک تگڑی اپوزیشن حکومت کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگی۔
انتخابات سے قبل بانی پی ٹی آئی کے کیسز کے فیصلے اتنی جلد بازی میں سنائے گئے کہ بہت سے قانونی تقاضوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا، قانونی ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں بانی پی ٹی آئی کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا۔،البتہ نظر آنے والی مشکلا ت کے باوجود پی ڈی ایم میں شامل کوئی بھی جماعت حکومت کو ختم ک رکے دوبارہ الیکشن میں جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا فائدہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا، صرف یہی ایک واحد وجہ ہے جو اِن تمام جماعتوں کو مل کر جیسے تیسے حکومت چلانے پر مجبور کرے گی، مگر اس صورتحال میں صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) وہ واحد جماعت ہوگی جس کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔