عشرہ ذوالحجہ کے فضائل

Published On 07 June,2024 11:42 am

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ نے ماہ ذوالحج کو بالخصوص اس کے پہلے عشرہ کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔

پہلی فضیلت

اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب)م یں ہوتا ہے جن کو حرمت عزت والے مہینے کہا جاتا ہے، ان میں خونریری، لڑائی جھگڑا وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے، حضرت ابو بکرہؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ رب العزت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں: تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور چوتھا مہینہ رجب والا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ (صحیح بخاری : 4662)

دوسری فضیلت
اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:عشرہ ذو الحج میں کئے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں، صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! کیا جہاد بھی ان کے برابر نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کیلئے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے(یعنی وہ شہید ہو جائے)۔ (صحیح بخاری : 969)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرہ ذوالحج زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بانسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے، ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اللہ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہو، تکبیر یعنی اللہ اکبر اور تحمید یعنی الحمد للہ کہو۔ (مسند عبد بن حمید : 805)

تیسری فضیلت
اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن ’’حج‘‘ کی ادائیگی کا مہینہ ہے، اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ۔

چوتھی فضیلت
اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ کہی جاتی ہیں۔

پانچویں فضیلت
اس مہینے کے پہلے عشرہ( پہلے نو دن) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے، حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور(عشرہ ذو الحج کی)ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے (جامع ترمذی: 689)، یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحج تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،ایک حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ ذوالحج کے(پہلے)نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے (ابو داؤد: 2081)

چھٹی فضیلت
اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پورا فرمایا، حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا اے امیر المومنین! آپ کی کتاب (قرآن کریم) میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی تو ہم اس دن عید مناتے، حضرت عمرؓ نے اس یہودی سے پوچھا کہ کون سی آیت؟ یہودی نے کہا جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا، حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا: ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری: 45)۔

ساتویں فضیلت
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کا روزہ ہے، جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:عرفہ(نویں ذوالحج)کے دن کے روزہ (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے (شعب الایمان: 3486)

حضرت فضل بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان، اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں (شعب الایمان:3490)، حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جبکہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابر سمجھا جاتا تھا(شعب الایمان : 3488)

حضرت ابو قتادہ انصاریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا(صحیح مسلم: 2716)، یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کیلئے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔

آٹھویں فضیلت
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اللہ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں، حضرت ابن المسیب سے مروی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ رب العزت باقی ایام کی با نسبت یوم عرفہ(نویں ذوالحج) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں(صحیح مسلم: 2402)۔

نویں فضیلت
اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اللہ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں، حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الا ضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے (ابن ماجہ: 1782)

دسویں فضیلت
اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اللہ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائیگی کی جاتی ہے، اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں، حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جوعید قربان والے دن قربانی پر کیا جائے (سنن الدارقطنی: 4815)

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو (جامع ترمذی: 1413)

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے، صحابہ کرام نے سوال کیا یارسول اللہﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپﷺ نے فرمایا: تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہﷺ!اون (کے بدلے کیا ملے گا)، فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی (سنن ابن ماجہ: 3127)۔

نوٹ:جس شخص نے قربانی کرنی ہو، اسے چاہیے کہ ذوالحج کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا جب ذوالحج کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے (صحیح مسلم: 5233)، اللہ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔