عید کی چھٹیوں میں سیاحت کا روڈ میپ

Published On 16 June,2024 12:06 pm

لاہور: (محمد جاوید پاشا) عید کے تین دن ایک اضافی چھٹی کے ساتھ آپ کو میسر ہیں؟ مختصر فراغت شائد آپ کو سیاحت کیلئے اُکسائے اور بچے گھر سے دور جانے پر بضد ہوں تو اپنی تفریحی منصوبہ بندی کو اس طرح ترتیب دیں کہ کم وقت اور معقول خرچ میں زیادہ سے زیادہ سیاحتی و تفریحی افادہ حاصل ہو سکے۔

آپ کم درجہ حرارت اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پاکستان کا شمال آپ کو خوش آمدید کہتا ہے، وقت کم ہے تو ایک یا دو دن نتھیا گلی کے بھیگے ہوئے موسم میں گزارے جا سکتے ہیں، دور دارز کے شہروں سے بذریعہ جہاز اسلام آباد آئیں اور دو گھنٹے کی مسافت کے بعد مری یا نتھیا گلی کے موسم سے لطف لیں، یہ قریب ترین ہل سٹیشن کم وقت رکھنے والے سیاحوں کیلئے کافی ہیں، یہ دونوں علاقے مہنگی تفریحی اور لوگوں کے ہجوم کے سبب شائد آپ کا شوق سیاحت نگل جائیں۔

اگر آپ کے پاس چار روز ہیں تو مری اور نتھیا گلی کے بجٹ میں آپ مظفر آباد، شاردہ ، کیرن ، اڑنگ کیل ، تاؤ بٹ اور رتی گلی کی جھیل تک جا سکتے ہیں، دریائے نیلم کے کنارے متعدد آبشاروں کی روانی آپ کو ناقابل فراموش منظر دینے کیلئے منتظر ہے، وادیٔ نیلم میں رہائش سستی اور تفریحی افادہ بہت زیادہ ہے، نئی تعمیر شدہ سڑکیں محتاط ڈرائیونگ کا تقاضا کرتی ہیں، دریائے نیلم کے قریب جانے سے گریز کرنا ہی محفوظ سفر کی ضمانت ہے۔

تین سے چار روز وادیٔ کالام، مالم جبہ اور سوات ویلی کے موسم بھی دلفریب ہیں، مینگورہ شہر تک پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی موجود ہے، یہ وادی بھی مختصر سیاحت کیلئے موزوں ہے، اگر چار یا پانچ دن آپ فطرت سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں تو ایم ون سے ہزارہ ایکسپریس وے کی طرف مڑ جائیں، یہ خوبصورت موٹروے آپ کو شاطے موڑ پر چھوڑنا پڑے گا۔

چند کلومیٹر بعد بالا کوٹ میں دریائے کنہار آپ کا استقبال کرے گا، بالا کوٹ پاکستان کے شمال کا دروازہ بھی کہلاتا ہے، آپ کیوائی آبشار سے شوگران کی پیالہ نما وادی میں جا کر، دھند میں گم بھی ہو سکتے ہیں، شوگران سے سری پائے بھی دور نہیں، اور سری پائے منی دیوسائی کہلاتا ہے۔

وادیٔ کاغان میں ناران اب مری کے بعد ملک کا دوسرا مصروف ہل سٹیشن بن چکا ہے، یہاں مہنگائی بھی مری کے برابر ہے، اس لئے کم بجٹ والے سیاح بٹہ کنڈی یا شہر سے دور کسی ہوٹل میں رہائش اختیار کریں، شور و غل ، آلودگی اور غلاظت سے محفوظ رہیں گے، وادیٔ کاغان میں آپ جھیل سیف الملوک کی طرف مت جائیں، وہاں کی گندگی آپ کو مایوس کر دے گی، لالہ زار، دودی پت اور لو لو سر جھیل آپ کی تسکین کیلئے کافی ہیں۔

کبھی جھیل سیف الملوک پاکستان کی قدرتی اور زندہ جھیل تھی مگر پھر اسے سوداگروں کے ہاتھوں نیلام کر دیا گیا، آپ اسلام آباد سے بذریعہ ہوائی جہاز گلگت یا سکردو پہنچ سکتے ہیں تو پھر یہی پاکستان کا شمال ہے، آپ نانگا پربت اور کے ٹو کے فضائی مناظر دیکھ لیں گے، پاکستان کا برفیلا وجود بھی آپ کی نگاہوں کے نیچے جہاز کی کھڑکی سے جھانکتا ہوگا مگر براستہ سٹرک بابو سر ٹاپ کی غلام گردشیں اور جھرنے کون دیکھے گا، ہر قدم پر ایک نیا منظر تو صرف براستہ سٹرک ہی اپنا آپ سیاحوں پر کھولتا ہے۔

آپ گلگت جا رہے ہیں تو خدارا قراقرم ہائی وے پر گاڑی دوڑانے کو سیاحت نہ سمجھ لینا، ضلع نگر میں راکا پوشی کے سفید معبد تک ضرور جانا، بیس کیمپ تک رنگ ہی رنگ بکھرے ہیں، قدرتی کرکٹ سٹیڈیم بھی ایک عجوبہ ہے، نگر کا اوشو تھنگ ہوٹل روایتی کھانوں کا واحد مرکز ہے، خنجراب تک جانے والے شمشال کو جانتے ہی نہیں کہ اطراف میں کیسی کیسی شاندار وادیاں پڑی ہیں اور سیاح حضرات عطا آباد جھیل میں کشتی رانی کر کے واپس لوٹ آئے ہیں، گلگت کی دوسری طرف چترال روڈ پر غذر اور پھنڈر کا جنت کدہ ہے، جہاں خلطی جھیل ہے ، پھنڈر جھیل ہے ، دریائے غذر اور گوپس ویلی ہے۔

آپ سکردو میں ہیں تو صرف کچورا جھیلوں تک محدود نہ رہیں، شگر روڈ کی طرف نکلیں اور ٹھنڈا صحرا بھی دیکھیں، اندھی جھیل اور دریائے برالدو کے گدلے پانی بھی دیکھیں۔

خپلو تک خوبانیاں کھائیں، دریائے شیوق کی طغیانی پر اپنی یادداشتیں رقم کریں، دنیا کی چھت دیوسائی پر پھولوں کی قالین پر قدم دھریں اور جھیل شیوسر کے کنارے بیٹھ کر کافی پئیں، جہاں جھیل کے پانی میں نانگا پربت کا عکس ناچتا ہے، اگر آپ مہم جو ہیں تو پھر جھیل کرومبر تک لازمی جائیں، یہ جھیل درہ درکوٹ کے اس پار چترال اور گلگت کی سرحد پر واقع ہے۔

شمال کے آخری گاؤں اسکولے سے ہوتے ہوئے کنکورڈیا اور پھر کے ٹو ٹریک پر بیس کیمپ تک جائیں، مگر آپ تو صرف عید کی تعطیلات کے دوران سیر و تفریح کیلئے گھر سے نکلے تھے اور میں آپ کو کہاں لے چلا، مگر میں خود بھی تو ایسے ہی ناران تک آیا تھا اور اب استور سے آگے منی مرگ اور ڈومیل تک جا پہنچا ہوں، دو دن پہلے نانگا پربت کے سامنے فیری میڈو کے ایک ہٹ میں میرا قیام تھا، میں بھی بارہ سال پہلے ایک عید کی چار چھٹیاں گزارنے ناران تک ہی آیا تھا اور پھر پہاڑ خود اپنے دروازے کھولتے گئے۔

محمد جاوید پاشا نامور کالم نگار اور ڈرامہ نگار ہیں، وہ ناظم پانی پتی کے فرزند ہیں۔