فضائی آلودگی…..بچوں کی دشمن

Published On 29 June,2024 03:29 pm

لاہور: (محمد علی) اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اس آلودگی کے باعث سنگین بیماریاں لاحق ہیں اور طبی نظام، معیشت اور معاشرے خطرات سے دوچار ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کے تعاون سے تیار کی گئی غیرسرکاری ادارے State of Global Air ( SOGA) کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021ء میں دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے نتیجے میں 81 لاکھ اموات ہوئیں، رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں کو فضائی آلودگی سے زیادہ خطرات درپیش ہیں جو 2021ء میں اس عمر کے سات لاکھ بچوں کی اموات کا سبب بنی۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے بیشتر اموات ہوا میں پائے جانے والے باریک ذرات (پی ایم 2.5) سانس کے ذریعے حلق میں جانے سے ہوتی ہیں، یہ ذرات فوسل فیول کے جلنے اور رہائشی عمارتوں اور جنگلوں میں آگ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں خرابی صحت کا متواتر اور واضح سبب گردانا جاتا ہے، گھریلو سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی، اوزون (O3) اور گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) کا بھی دنیا بھر میں انسانی صحت کی خرابی میں نمایاں کردار ہے۔

غیرسرکاری ادارے Health Effects Institute کی صدر ایلینا کرافٹ کا ماننا ہے کہ یہ رپورٹ اس معاملے میں تبدیلی کا محرک ثابت ہوگی، فضائی آلودگی سے انسانی صحت بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہی ہے تاہم فضائی معیار اور عالمی سطح پر صحت عامہ کو بہتر بنانا ممکن ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی سے بچوں کو خاص طور پر خطرات لاحق ہیں اور یہ ماں کے پیٹ میں بھی بچے کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے، دنیا میں چھوٹے بچوں کی 20 فیصد اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں، کم آمدنی والے ممالک میں بچوں کو نمونیے اور دمے جیسی سانس کی بیماریوں سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

یونیسف کی نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹرKitty van der Heijden نے کہا ہے کہ روزانہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 2000 بچے فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں، اس معاملے میں عالمی سطح پر فوری اقدامات ضروری ہیں، حکومتوں اور کاروباری حضرات کو لازمی طور سے چاہیے کہ وہ ان اندازوں اور مقامی سطح پر دستیاب معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں آگاہی پر مبنی بامعنی اقدامات کے لیے کام میں لائیں جن میں بچوں کی صحت کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دی جائے۔

The Lancetنامی میڈیکل جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی صحت پر برے اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ بیماریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فضائی آلودگی سے انسانوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کیلئے اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو اس کے اثرات پوری انسانی نسل کو بیماریوں کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بچوں کو خطرات لاحق ہیں۔

یہ رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نک واٹسن کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی سے بچوں کی جسمانی نشوونما اور قوت مدافعت کا نظام پوری طرح متاثر ہو رہا ہے، لندن میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایا کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کیلئے تمام ممالک کی جانب سے فوری اقدام کئے بغیر صحت مند دنیا کی تشکیل ناممکن ہے۔ان کے بقول، عوامی صحت میں بہتری نہ لائی گئی تو پوری نسل بیمار ہو جائے گی۔ لہذا اس مسئلے پر کسی سمجھوتے کی ضرورت نہیں۔

تحقیقی ٹیموں کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے اور عالمی سطح پر بڑھتی حرارت کو روکنے کیلئے صرف پالیسیاں ہی متعارف ہوتی رہیں تو اس کا نتیجہ حیران کن ہوگا، رپورٹ کے مطابق اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو حقیقی طور پر قابو کر لیا گیا تو آج پیدا ہونے والا بچہ برطانیہ میں کوئلے کے استعمال کو ختم ہوتا دیکھ سکے گا۔

The Lancet کی جانب سے کئے گئے مطالعے میں 35 اداروں کے 120 ماہرین کی تحقیق شامل ہے، ان ماہرین کا تعلق عالمی ادارہ صحت، ورلڈ بینک، یونیورسٹی کالج لندن اور چین کی سنگھوا یونیورسٹی سے ہے، نک واٹسن نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بچپن میں صحت کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات تاحیات رہتے ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ
Health Effects Institute میں عالمی صحت کے شعبہ کی سربراہ ڈاکٹر پلاوی پنت نے کہا ہے کہ نئی رپورٹ اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ فضائی آلودگی سے انسانی صحت پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، چھوٹے بچوں، معمر افراد اور کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کو اس سے خاص طور پر خطرات لاحق ہیں، شہروں اور ممالک کو اپنی طبی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت فضائی معیار اور فضائی آلودگی کو انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک عوامل کے طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔

اسی طرح غیرمتعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے پروگراموں میں بھی فضائی آلودگی کے مسئلے کو زیرغور لانا ضروری ہے، پی ایم 2.5 جیسے آلودہ ذرات لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہونے کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے ہیں جو کرہ ارض کو گرم کر رہی ہیں، جب زمین گرم ہوتی ہے تو جن علاقوں میں این او 2 کی مقدار زیادہ ہو وہاں اوزون گیس بھی بڑی سطح پر محسوس کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ خرابی صحت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

State of Global Air کی رپورٹ میں انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے مضر اثرات کی تفصیلات کے ساتھ یہ دعوے بھی موجود ہیں کہ اب لوگ گھریلو سرگرمیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی فضائی آلودگی کے نقصانات سے بہتر طور پر آگاہ ہیں، کھانا بنانے کیلئے ماحول دوست توانائی تک رسائی میں اضافے کے نتیجے میں 2000 کے بعد پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں 53 فیصد تک کمی آئی ہے۔

دنیا کے جن علاقوں میں فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں اس کی نگرانی کے نیٹ ورک قائم کر کے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسی طرح فضائی معیار سے متعلق کڑی پالیسیوں کا نفاذ بھی عمل میں لایا جا رہا ہے اور ایسے اقدامات افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔