لاہور: (ابوالفضل صدیقی) ادبی تخلیقات کی رفتار جتنی تیز ہوتی ہے اتنی ہی ان فنکاروں کی پیداوار میں کمی ہوتی جاتی ہے جن کے یہاں انفرادیت ہوتی ہے، اس دلچسپ حقیقت کو ہم نے اردو ادب میں بھی دیکھ لیا ہے۔
بیدی، کرشن چندر، عصمت اور دو ایک نام اس فہرست میں اور اضافہ کر لیجئے جنہوں نے اردو افسانہ نگاری میں انفرادیت کی کچھ ایسی مہر لگائی اور اپنی بے پناہ فکر و استعداد سے پیچھے آنے والے ادیبوں کو اس طرح متاثر کیا کہ 1943ء کے بعد ہر نیا ادیب انہی افسانہ نگاروں کی دنیا میں کھو کر رہ گیا، کرشن چندر، اَن داتا کے بعد آہستہ آہستہ انحطاط کی جانب مائل ہونے لگے۔
بیدی نے ادب کو کبھی کبھار کا مشغلہ بنا لیا اور عصمت جنس سے نکل کر جب مزدوروں اور کسانوں کی دنیا میں آئیں تو اپنے پیچھے چلنے والوں سے بھی پیچھے رہ گئیں، جب ہمارے ادب کا یہ حال ہو تو ایسی صورت میں جب کوئی بت شکن اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اسے دیکھ کر خواہ بڑے پجاری اور پرانے بت کتنے ہی خفا اور جز بز کیوں نہ ہوں لیکن ایک سچا نقاد داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قدرت اللہ شہاب 1943ء کے بعد کا ایک بہت بڑا بت شکن ہے جس نے اپنے افسانوں سے صرف چونکایا ہی نہیں بلکہ بتوں اور پجاریوں کی صفوں میں ایک عجیب انتشار سا بھی پیدا کر دیا ہے، ان کا آخری افسانہ ’’ یا خدا‘‘ تو اس منزل کا سنگ میل ہے جہاں پہنچ کر ہمیں نہ معلوم کتنے لات و منات اور فنی پجاریوں کو تلملاہٹ محسوس ہوتی ہے، اس افسانہ پر جب لوگوں کی برہمی کا اظہار دیکھا تو میں نے اسے دوبارہ پڑھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں غلط طور پر اس سے متاثر ہوگیا ہوں اور تقاضائے بشریت کے تحت جذبات کی رو میں بہہ گیا ہوں اور افسانہ کے موضوع کی سنگین قسم کی رنگینی میں گم ہو کر اسے اردو کے بہترین افسانوں میں سے ایک اور فسادات پر لکھے ہوئے افسانوں میں بہترین خیال کرنے لگا ہوں۔
لیکن آج پھر ایک بار بڑے فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نہ صرف میرا پہلا خیال صحیح ہی تھا بلکہ دوبارہ مخصوص نظر سے پڑھنے کے بعد میری رائے راسخ تر ہوگئی اور نہ صرف رائے راسخ تر ہوگئی بلکہ مجھے اس میں چند خوبیاں ایسی نظر آئیں جن پر پہلے مطالعہ میں نگاہ نہ پہنچی تھی اور مجھے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی برہمی کے پردے میں کچھ اور ہے جس کی تشریح کی مجھے ضرورت نہیں۔
قدرت اللہ شہاب کے بارے میں چند باتیں کہنی نہایت ضروری سمجھتا ہوں اس لئے کہ میری ادبی ایمانداری اور فنی خلوص بار بار مجھے اُکسا رہا ہے کہ اس ہنگامہ میں جبکہ سیاہ و سفید کی تمیز دنیا کے کسی شعبہ میں باقی نہیں رہ گئی تو کم سے کم ادب کے چشمہ کی صاف پھواروں کو ہر قسم کی آمیزش سے بچانا ہمارا نہ صرف ادبی بلکہ اخلاقی فرض ہے اور ایسے موقع پر چپ بیٹھے رہنا بھی ایک بڑا فنی جرم ہے، اس ہنگامہ نے مجھے قدرت اللہ شہاب کے تقریباً تمام پچھلے مشہور افسانے پڑھنے کیلئے اکسایا، میں ہر نئے اور پرانے افسانہ نگار کی تخلیق کو ذرا غور سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کتنے افسانے ایسے ہیں جو ادبی اور افسانوی معیار پر پورا اترتے ہوں، انہی معدودے چند افسانوں میں سے چند افسانے قدرت اللہ شہاب کی جدت و قدرت فکر کا نتیجہ ہیں، سب سے پہلی چیز جو شہاب کے یہاں ہمیں متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ افسانہ نگار کی شخصیت ہمارے سامنے مکمل طور پر ابھر کر آ جاتی ہے اور افسانہ کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ نکھرتی چلی جاتی ہے اور یہی ایک چیز ہے جس نے شہاب کو نہ صرف ایک کامیاب افسانہ نگار بنا دیا بلکہ ایک صاحبِ طرز ادیب اور ایک حساس شاعر کے ساتھ ایک منفرد انشا پرواز بھی بنا دیا اور ہر جہت سے وہ ایشیا کا ایک عظیم فنکار ہے جس کے پاس گھلاوٹ اور شیرینی کے خوشگوار گھونٹ ہیں جس کی آستینوں میں طنزو تشنیع کے تیز نشتر اور مسموم پیکان ہیں، جس کی دستار پر بانکپن اور تیکھے پن کے رنگین طرے لہرا رہے ہیں اور اس کو یہ تمام چیزیں ان تمام افسانہ نگاروں سے ممیز کرتی ہیں جو سپاٹ اور بے جان طریقہ سے ایک ’’ اچھی بات‘‘ کو پیش کر دینا ہی سب سے بڑی نیکی اور سعادت سمجھتے ہیں‘‘۔
’’ اچھی بات‘‘ کا تو میں بھی قائل ہوں لیکن ’’ اچھی بات‘‘ اچھے طریقے سے پیش نہ کرنا بھی ’’ بری بات‘‘ سے کم نہیں، ادب میں موضوعات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے، ایک دور کے اکثر ادیبوں کا تجربہ اور مطالعہ تقریباً ایک ہی سا ہوتا ہے لیکن ان کی تخلیقات میں جو چیز امتیازی شان پیدا کرتی ہے وہ ان کے پیش کرنے کا طریقہ ہوتا ہے، ادب میں ’’ ابلاغ‘‘ کو بہت اہمیت ہے، آپ کے پاس خواہ کتنا ہی عمدہ موضوع ہو لیکن اگر طرزِ ادا بھونڈا ہے تو صرف موضوع آپ کی ادبی تخلیق کو جاندار نہیں بنا سکتا۔
موضوع اور طرز اظہار کا جسم و روح والا رشتہ ہے اور وہ بھی خوشگوار تناسب کے ساتھ۔ موضوع اور فن کو جن ادبا نے صحیح طور پر جانا ہے ان میں یہ افسانہ نگار بھی ہے، پہلے پہل’’ ادبی دنیا ‘‘میں میں نے شہاب کے افسانے دیکھے تو باوجود نام کے نئے پن کے مجھے ان کی انفرادیت نے متاثر کیا اور سب سے شروع کی ہی چند چیزوں میں مجھے شہاب میں مستقبل قریب کا ادبی بت شکن ابھرتا نظر آیا۔
قدرت اللہ شہاب تو ضرور اس قابل ہے کہ ہم اس سے محبت کریں،’’محبت‘‘ کا لفظ میں نے خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے اس لئے کہ قدرت اللہ شہاب اپنے افسانے کے کرداروں کو ہم پر مسلط کر کے ہمیں متاثر نہیں کرتا بلکہ افسانوں کے کرداروں سے زیادہ اس کا طرز ادا خود افسانہ نگار کی شخصیت کو ہم پر سوار کر دیتا ہے، یہ ہے کچھ عجیب سا پہلو شہاب کی بے پناہ فنکاری کا اور اس مخصوص صفت میں ہمیں دور موجودہ میں اپنی صف میں وہ تنہا ہی نظر آتا ہے۔
کہ آپ اپنا تعارف
قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 ء کو گلگت میں پیدا ہوئے، والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام کریماں بی بی تھا، والد کم سِنی میں یتیم ہوگئے تھے مگر ایک ستم اور ہوا کہ دورِ یتیمی میں داخل ہوتے ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ بال بال نہ صرف قرض میں جکڑا ہوا ہے بلکہ جو کچھ بھی زمین ہے اور جس مکان میں قیام ہے وہ مہاجن کے پاس گِروی ہے۔
اْسی دن سے عبداللہ نے ارادہ کر لیا کہ اپنے زورِ بازو سے آگے بڑھنا ہے، چمکور میں سکول ہی نہ تھا، وہاں سے میلوں دور واقع ضلع انبالہ کے سکول میں داخلہ لیا اور یہ سچّی لگن اور محنت ہی تھی کہ پورے انبالہ میں میٹرک کے امتحان میں اوّل آئے، یہ تو تھی والد کی مختصر سی کہانی، بیٹا اس سے بھی آ گے نکلا۔
قیام پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل، وفاقی سیکرٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکرٹری، سیکرٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکرٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔
یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے، اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کیلئے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا، قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل ہے، ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماںجی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے، قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔
انڈین سول سروس اور۔۔۔۔
قدرت اللہ شہاب جب 1941 ء میں انڈین سوِل سروس کیلئے منتخب ہوئے تو جموں و کشمیر کی تاریخ کے وہ پہلے مسلمان تھے جو اْس اعلیٰ سول سروس کا حصہ بننے جا رہے تھے، خود آئی سی ایس یا انڈین سول سروس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ ‘‘ میں ’’صاحب، بنیا اور میں‘‘کے عنوان سے مختصرمگر پُرمعنی تبصرہ کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’آئی سی ایس (انڈین سول سروس) نے لوٹ کھسوٹ میں جنم لیا، مار دھاڑ میں پروان چڑھی، سلطنت آرائی میں عروج پایا اور برِّصغیر میں آزادی کے نزول کے ساتھ ہی دَم توڑ دیا۔‘‘ سروس میں پہنچنے کے بعد جس جگہ تعینات کیا گیا اُس میں اوّل ہندوستان کی ریاست بہارکا ضلع بھاگل پور تھا کہ جہاں 1942ء میں خاصے فسادات بھی ہوئے، 1943ء میں اْنہیں بنگال بھیج دیا گیا۔
ابوالفضل صدیقی اردو کے صف اول کے افسانہ نگار، ناول نگار اور مترجم تھے، انہیں متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔