انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے درمیان فاصلہ کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ ڈگری یافتہ نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے اور نئے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے کن کاوشوں کی اہم ضرورت ہے۔
تحریر: قاسم علی شاہ
میں صبح ناشتے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی ایک انجانا نمبر تھا میں نے فون اٹھایا تو سلام دعا کے بعد اس نے اپنا تعارف حامد کے نام سے کرایا اور بتایا کہ میں آپ کا شاگرد ہوں۔ ذہن پر زور دیا تو چند لمحوں میں اس کا چہرہ ذہن میں آگیا، حامد بولا سر میں آپ سے ملناچاہتاہوں ۔میں نے اگلے دن کا وقت دے دیا۔
حامد پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی گیا تھا جہاں سے اس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی اور وہ وطن واپس آگیا، اس کو یقین تھا کہ پہلی فرصت میں ہی مجھے ایک اچھی نوکری مل جائے گی لیکن کئی انٹرویوز دینے کے بعد بھی اس کو نوکری نہ ملی تو وہ پریشان ہو گیا اور اس کو لگ رہا تھا کہ کئی سالوں کی محنت اور خرچا ضائع چلا گیا۔
سارے حالات سن کر میں نے اسے بتایا کہ اگر چہ آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن آپ کی ریسرچ جرمنی کے حالات کے تناظر میں تھی، اور یہی وجہ ہے کہ ڈگری کے باوجود بھی پاکستان میں آپ کی پسند کی نوکری نہیں مل رہی، میں نے مشورہ دیا کہ آپ صفر سے اپنا آغاز کریں، کسی اچھی کمپنی میں انٹرن شپ شروع کریں تو وہ تو مطمئن ہو کر چلا گیا لیکن مجھے ایک فکر دے گیا۔
میں نے اپنے آس پاس معاشرے میں دیکھا تو یہاں ڈگری یافتہ جوانوں کی ایک پوری فوج موجود تھی جن کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی، ڈگری یافتہ نوجوانوں کے ان مسائل کو حل کرنے اور نئے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے Let s payback کے نام سے ایک کمپین کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد دونوں شعبوں کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ہم نے ایک مکالمہ کا اہتمام کیا جس میں انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے 22 معزز شخصیات کو مدعو کیا اور انھیں کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا تاہم اس سلسلے میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سے بھی خصوصی نشست کی گئی۔
طلبہ کی قابلیت کو نکھارنا
پاکستان میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں ۔اگر پاکستان کا بناہوا فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے منتخب ہو سکتا ہے تو یہاں کا فٹ بالر کیوں نہیں؟ اس وقت پوری دنیا میں وہی قوم آگے بڑھ چکی ہے جو اپنی تخلیقی صلاحیت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے، ہماری یونیورسٹیو ں کی دیواروں پر جو ’’ایجادات‘‘لگی ہوئی ہیں وہ کئی زمانوں پہلے کی ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ ہم اب تک کچھ نیا نہیں کر سکے۔
برانڈنگ کا طریقہ
طلبہ کو پریزنٹیشن اسکلز کے ساتھ ساتھ ’’برانڈنگ‘‘ سکھانی چاہیے کیوں کہ ہمارے طلبہ نئی چیزیں ایجاد تو کر لیتے ہیں لیکن خود کو برانڈ نہیں کر سکتے۔
قابل انسان کون؟
طلبہ کے سامنے اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قابل انسان کون ہوتا ہے؟ جس انسان کے اندر سافٹ اسکلز ، ہارڈ اسکلز اور مڈل اسکلز موجود ہوں تواس کو زمانہ ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔
طریقہ تدریس
وقت آگیا ہے کہ اب یونیورسٹی میں پڑھانے والا استاد اپنے پڑھانے کا انداز تبدیل کرے، نوٹس کی کاپیاں کرانے کے بجائے وہ طلبہ کو اس انداز میں پڑھائے کہ ان میں تجسس اور شوق پید اہو۔
ریسرچ میں رہنمائی
یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے طلبہ کی ریسرچ اور تحقیقی عمل میں ان کی رہنمائی کریں ۔ان کاحوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ اس موضوع پر نئے انداز میں تحقیق کریں۔
انڈسٹری ماہرین سے استفادہ
یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ انڈسٹری کے ماہرین کو اپنے بورڈ میں شامل کرے اور جب بھی نصاب کے متعلق مشاورت ہو تو ان ماہرین کو بھی مدعو کرے۔
بی اورسی کیٹیگریز والی یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک
انڈسٹری ماہرین کو چاہیے کہ جاب انٹرویو میں صرف امیدوار کی یونیورسٹی کونہ دیکھیں بلکہ اس کے اندر قابلیت کو دیکھیں۔
شخصی اخلاقی تربیت
بچوں کو تعلیم اور نوکری کا شعور دینے سے زیادہ ان کی شخصیت سازی اور اخلاقی تربیت بہت ضروری ہے۔
پالیسی سازی میں انڈسٹری ماہرین کو شامل کرنا
شعبہ تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ ’’ہائیر ایجوکیشن کمیشن‘‘ ہے، ہائیر ایجوکیشن کی تعلیمی پالیسیاں ہمیشہ استاد کو دیکھ کر بنائی جاتی ہیں طلبہ کو نہیں تاہم ہائیر ایجوکیشن کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
پڑوسی ممالک سے سبق
بھارت اور چین ہمارے پڑوسی ممالک ہیں ہم مغربی اقوام کی طرف تو دیکھتے ہیں لیکن اپنے ان پڑوسیوں کو نہیں دیکھتے جو ترقی کی جانب گامزن ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج وہ آئی ٹی کی دنیا میں اعلیٰ پوزیشن پر براجمان ہے۔
نااہل اساتذہ: کئی نسلوں کی تباہی
تعلیمی نظام کی کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفارش پر ایسے اساتذہ بھرتی کر دیے جاتے ہیں جو نااہل ہوتے ہیں، اساتذہ کی بھرتی کے عمل کو سخت اور میرٹ کے مطابق کرنا چاہیے تاکہ نسلیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔
ہر چارسال بعد نصاب میں تبدیلی
ہارورڈ یونیورسٹی چار سال بعد اپنی ڈگری پروگرام تبدیل کرتی ہے نصاب کو سالہا سال تک چلانا عقل مندی نہیں، ہمارے ہاں بھی اس طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔
اس نشست کے شرکاء نے قاسم علی شاہ فاونڈیشن کی اس بہترین کاوش کو خراج تحسین پیش کیا۔