ملٹری ٹرائل کیس:کیا دھماکہ کرنیوالے اور سویلینز میں کوئی فرق نہیں؟ جسٹس حسن اظہر

Published On 03 February,2025 10:15 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا ہے کہ کیا دھماکہ کرنیوالے اور سویلینز میں کوئی فرق نہیں؟

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ  نے سماعت کی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے آج بھی دلائل جاری رکھے۔

دلائل دیتے ہوئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے ، سپریم کورٹ کے تمام پانچ ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی: ایڈووکیٹ احمد حسین

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکہ کرنے والے اور عام سویلینز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ جس پر خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ اکسیویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے جس پر ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21ویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہوگا؟ وکیل جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔ 

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغواء کیا گیا تھا۔

اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا: جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، صرف یہ دیکھنا ہے اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج : جسٹس امین الدین

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو، اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی، آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا ۔

شکر ہے ایف بی علی کیس کا پورا نام پتا چلا: جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ایف بی علی پر ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیاء الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاء الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغواء کر لیا گیا تھا، اغواء کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر سے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اس کیلئے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ جس پر ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ 21ویں ترمیم کو دو سال کی توسیع ملی 2019 میں ختم ہو گئی، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ مارشل کیسے ہوگیا؟

کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ آئینی بنچ

خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ نو اور دس مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا، جس پر مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ جواب یہ ہے کہ ملزمان آزاد نہیں ہونگے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔

بعدازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بنچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں، میرے موکل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکمنامے کیخلاف نظرثانی بھی دائر کر رکھی ہے، جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر مؤثر ہو چکی ہے، آئینی بنچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کیا کہ ٹھیک ہے، نظرثانی واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس پر عائد جرمانے کا حکمنامہ واپس

بعدازاں آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس پر عائد کیا گیا جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے متفرق درخواست دائر کی تھی، درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک ملٹری کورٹس کیس پر کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی تھی، آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہو گئے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی، بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کل دلائل کا آغاز کریں گے۔