اسلام آباد:(دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس فیصلہ میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا۔
اختلافی نوٹس میں دونوں ججز کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ دنیا میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں، درست نہیں، یہ درست ہے کہ عام فوجداری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے۔
نوٹس کے متن میں یہ بھی لکھا گیا کہ سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے، عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات میں آتے ہیں،ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں بتایا گیا کہ انٹر کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوجداری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے۔
نوٹس میں ججز نے یہ بھی لکھا کہ ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے، جو کہ ناقابل فہم ہے، فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں ان نقطے کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں ججز کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے مقدمات کو سمجھنے کی بجائے اپنے مقصد کیلئے فوجی عدالتوں پر انحصار کرہے ہیں، عام فوجداری عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟