لاہور (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے قتل کے مقدمے میں 100 سال سزا پانے والے مجرم کی اپیل خارج کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ملزم صغیر حسین کی درخواست پر 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے فیصلے میں لکھا کہ مجرم صغیر حسین نے اپنی رہائی کیلئے ایک مرتبہ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، درخواست گزار کے مطابق وہ 1989 سے جیل میں قید ہے، لاہور ہائیکورٹ نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کی، مجرم نے سزا کم کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ نے مجرم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ تین بار عمر قید کی سزا الگ الگ چلے گی، مجرم کو دیگر دفعات کے تحت بھی ایک مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مجرم کی کل سزا 100 برس ہو گئی۔
فیصلہ میں تحریر ہے کہ پاکستان پریژن رولز 1978 کے تحت مجرم نے سزا معافی کی درخواست دی، 100 برس سزا ہونے کے باعث مجرم صغیر حسین 59 برس کی سزا معاف کرانے میں کامیاب ہو گیا، مجرم کی تاحال ساڑھے چار برس کی قید باقی ہے۔
جسٹس امجد رفیق نے فیصلے میں لکھا کہ مجرم صغیر حسین کی جانب سے بتایا گیا اس کی دوران ٹرائل ڈیرھ برس کی قید کو صرف ایک مرتبہ کاؤنٹ کیا گیا ہے، صغیر حسین نے درخواست دی کہ اس کی دوران ٹرائل قید کو چار مرتبہ کاؤنٹ کیا جائے، ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات ملتان نے صغیر حسین کی درخواست آئی جی جیل خانہ جات کو بھجوائی، آئی جی جیل خانہ جات نے ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہدایت مانگی، درخواست گزار نے کسی محکمے سے جواب نہ آنے پر عدالت سے رجوع کیا، درخواست گزار نے استدعا کی کہ اس کی سزا درست کاؤنٹ کرکے رہائی دی جائے۔
جسٹس امجد رفیق نے فیصلے میں لکھا کہ یہ کیس کسی ناول کی کہانی کی صورتحال ہے، قانون شہادت میں سیکشن 382 بی لاء ریفارمز آرڈیننس 1972 کے ذریعے متعارف کرایا گیا، سیکشن 382 بی کے تحت عدالتوں کو ملزم کی سزا کا تعین کرنے کا اختیار دیا گیا، عمر قید کی سزائیں کیسے چلتی ہیں اور کاؤنٹنگ کیسے ہو گی اس کے لئے پنجاب پریزن رولز دیکھنے کی ضرورت ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ پریزن رولز کے تحت ایک بار عمر قید کی سزا 25 سال ہو گی، پندرہ برس سزا کاٹنے کے بعد ملزم سزا معافی کی اپیل دائر کرنے کا حقدار ہو جاتا ہے، اگر پریزن رولز موجودہ کیس پر لاگو کریں تو ملزم کو کم ازکم 60 برس سزا کاٹنے کے بعد اپیل کا حق ہو گا۔
پریزن رولز 218 کے مطابق سیکشن 401 کے تحت ہونے والی سزا معافی سپشل معافی ہے جو حکومت عوامی تہواروں پر کرتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ موجودہ کیس میں 59 سال کی سزا معاف کرنے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا آئی جی جیل خانہ جات چیک کر سکتے ہیں، عدالتی معاون کے مطابق کوئی ریکارڈ اور قانونی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں جس کے تحت سزا معاف کی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم کی سزا کو سنگل سزا کے طور پر دیکھا جائے گا، اگر سزا سنگل سزا ہے تو پھر دوران ٹرائل قید کو بھی ایک بار ہی گنا جائے گا، محکمہ جیل خانہ جات ملزم کی بقیہ سزا معافی کیلئے کیس حکومت کو بھجوا سکتا ہے، حکومت کو ملزم کی سزا معافی کا اختیار ہے، سزا معافی کی درخواست مرحوم کے قانونی ورثا کی اجازت کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔
واضح رہے کہ ملزم صغیر حسین سمیت دیگر کے خلاف لاہور کے تھانہ وحدت کالونی میں 24 اگست 1989 کو قتل سمیت دیگر دفعات کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے صغیر حسین کو تین مرتبہ سزائے موت اور ایک مرتبہ عمر قید کی سزا کا حکم سنایا تھا۔