سیرت النبیﷺ اور معاشرے کی تعمیر

Published On 26 September,2025 11:04 am

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) حضور نبی کریمﷺ کی ذات گرامی ساری انسانیت کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے، آپﷺ کی بعثت سے قبل جاہلیت کا دور دورہ تھا، بشمول جزیرہ عرب ساری دنیا جہالت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی، لوگ بداعتقادی، توہم پرستی اور کفر و شرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔

فحاشی وبے حیائی عام تھی، ظلم و زیادتی اور حق تلفی عام تھی، سود خوری اور جوا بازی کا بازار گرم تھا، لوگوں کے درمیان محبت و الفت کے تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ عداوت و دشمنی، بغض وعناد ان کے مابین عام تھا، نفرت و مخالفت کی وجہ سے دو قبیلوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی نوبت آتی، ہر دو قبیلے اپنے حلیف قبائل سے تعاون لیتے تاکہ دوسرے قبیلہ کو تباہ و تاراج کر دیں۔

اس دہشت ناک ماحول میں انسانی جان کیسے محفوظ رہ سکتی تھی؟ جان کی ارزانی کا یہ عالم تھا تو مال کی تباہی و بربادی کا کیا پوچھنا؟ دلوں میں شدت و سختی تھی، تعلقات میں کشیدگی تھی، خود غرضی، غرور و تکبر کو لوگ اپنی شان سمجھتے تھے، ایسے نازک وقت میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کیلئے، کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان و اسلام کے انوار سے منور کرنے اور جہالت و ناخواندگی کو مٹا کر دولت علم سے مالامال کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے محسن انسانیت، رحمۃ للعالمین ﷺ کو ختم نبوت کی خلعت فاخرہ پہناکر تمام مخلوق کی طرف بھیجا۔

نبی کریمﷺ اس قتل و غارت کے معاشرے میں پیکر امن بن کر تشریف لائے، وہ معاشرہ جس میں انسان کی عزت و تکریم کا کوئی تصور نہ تھا، آقاﷺ اس معاشرے میں رہے اور اس معاشرے کے برے رسم و رواج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انسان کی تکریم و عظمت کا سبق دیا، قتل و غارت گری سے منع کیا، ان پڑھوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا، دشمنی کرنے والوں کو محبت کرنا سکھایا، خون خرابہ کرنے والوں کو خون کی حفاظت کرنا سکھایا، معاشرے میں جبر اور بربریت کرنے والوں کو رحمت کا طریقہ سکھایا۔

نبی کریم ﷺنے معاشرے کو کیسے تبدیل کیا؟

عرب معاشرہ کس راستہ اور روش پر گامزن تھا اور جو نیا راستہ آقاﷺ نے عطا کیا ان دونوں کا تذکرہ سیرت کی کتب میں مذکور ہے، پانچ اور چھ سن نبوت میں جب مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی حد کر دی، صحابہ کرامؓ تعداد میں کم ہونے سے کمزور اور پریشان حال تھے، ان حالات میں نبی کریمﷺ نے انہیں حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا، یہ تاریخ اسلام میں پہلی ہجرت تھی، قریش مکہ نے اپنا وفد حبشہ بھیجا تاکہ وہ شاہ حبشہ نجاشی کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ مسلمانوں کو واپس مکہ بھیج دے۔

بادشاہ نے قریش مکہ کے وفد کا موقف سنا اور مہاجر صحابہ کرامؓ کو بلایا اور اپنے دربار میں عیسائی مذہبی رہنماؤں کی موجودگی میں ان سے سوال کیا: قریشِ مکہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دین کی روش سے پھر گئے ہیں، ہماری رسم و رواج کا ایک معیار اور تاریخ تھی، ہمارا عقیدہ، مذہب، کلچر اور روایت ایک تھی، انہوں نے ان روایات، آبائی مذہب، کلچر اور عقائد کو چھوڑ دیا ہے اور ایک نیا مذہب اختیار کرلیا ہے، اے مسلمانوں! وہ کونسا نیا دین ہے جس کیلئے تم نے اپنے آباؤ اجداد کا مذہب ترک کر دیا؟

حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کھڑے ہوئے اور دین محمدی کے نمایاں پہلو شاہِ حبشہ کے سامنے بیان کئے: اے بادشاہ! ہم جاہل، غیر تہذیب یافتہ اور وحشی قوم تھے، ہم بتوں کی پوجا کرتے اور مردار کھاتے تھے، ہم قطع رحمی کرتے اور پڑوسیوں کے حقوق سے ناآشنا تھے، ہم میں سے طاقتور اپنے سے کمزور کو کھا جاتا تھا،ہم ان ہی برائیوں (روش، طریقہ) پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہی ایک رسولﷺ مبعوث فرمایا، جس کا نسب ہم جانتے ہیں۔

انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی توحید کو تسلیم کریں اور اس کی عبادت کریں، ان بتوں کی پوجا ترک کر دیں، جن کی ہم اور ہمارے آباؤ اجداد پرستش کرتے چلے آ رہے تھے، نبی اکرمﷺ نے ہمیں نیا راستہ دکھایا، ان کی روش، پرانی روش سے جدا تھی، ان کی دعوت اور تعلیم پرانے طریقے سے جدا تھی، انہوں نے جو ہمیں دعوت دی اور جو راستہ دکھایا، وہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے، محرمات سے اجتناب کرنے، خون ریزی سے بچنے اور برائیوں سے رکنے کا حکم دیا۔

ہمیں حکم دیا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، یتیم کا مال نہ کھائیں اور پاک باز خواتین پر تہمت نہ لگائیں، پس ہم نے پرانی روش بدلی اور یہ نیا طریقہ اختیار کیا اور اس نئے طریقے کو قبول کرنے کے نتیجے میں ہماری قوم ہمارے خلاف ہوگئی(صحیح ابن خزیمہ: 2260)۔

شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں بیان کردہ انہی اصولوں اور صفات کو حضور نبی اکرمﷺ نے دیگر مختلف مواقع پر بھی بیان فرمایا، جن کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کس طرح نبی کریمﷺ ان معاشرتی رسوم و رواج سے جدا و علیحدہ ہوئے اور کن تعلیمات اور اقدار کو معاشرہ میں پروان چڑھایا۔

مدینہ منورہ کے اوس وخزرج قبیلوں کا وفد اور امن معاہدہ

621ء میں ہجرت مدینہ سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ یثرب (مدینہ) سے آئے، نبی کریمﷺ چونکہ معاشرے کی روش سے جدا تھے، اس معاشرے میں رہ کر معاشرے کی بری عادتوں سے پاک تھے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین فرماتے، یثرب کی سرزمین پر صدیوں سے اوس و خزرج کے درمیان جاری جنگوں میں کوئی مصالحت کرانے والا نہ تھا، انہیں امن و دوستی کا سبق دینے والاکوئی نہ تھا، وہ یثرب میں تھے انہوں نے اڑھائی تین سو میل دور محمد مصطفیﷺ کی شانِ امن کو سنا، آپﷺ کے کردار کی خبر ان تک پہنچی کہ انہوں نے فساد ختم کر کے امن کی تعلیم دی ہے، یہ سراپا امن ہیں۔

پس اوس و خزرج کے قبائل نبی کریمﷺ کو مکہ میں بطورِ خاص ملے، اس دوران آقاﷺ کو دعوت بھی دی کہ آپﷺ آئیں تاکہ صدیوں سے جاری ہماری دشمنیاں ختم ہو جائیں اور قتل و غارتگری امن میں بدل جائے، نبی کریم ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دینا آپﷺ کے پیغمبر امن ہونے کی بنیاد پر تھی۔

صحیح مسلم میں ہے، حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا۔ (1) ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (2)ہم چوری یا ڈاکہ زنی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ (3)ہم بدکاری کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ (4)ہم بچیوں کو قتل نہیں کریں گے۔ (5) ہم کسی پر الزام تراشی یا اس کی غیبت نہیں کریں گے۔ (6) ہم عورتوں پر تہمت نہیں لگائیں گے۔ (7) ہم ہمیشہ عفت و عصمت اور حیاء والی زندگی گزاریں گے۔ (8) ہم نیک افعال اور اَعلیٰ مقاصد میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گے۔ (9) ہم حق اور سچ کو زندگی کا مشن بنا کر چلیں گے اور ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہیں گے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے جس روش، طریقہ اور راستہ پر اس معاشرے کے لوگوں کو چلایا اور ہدایت دی، وہ معاشرہ ان اقدار سے پہلے آگاہ نہ تھا، آپﷺ اس معاشرے کے اندر پیدا ہوئے اور ایک نئے اقدار کی کائنات آباد کر دی، دنیا کو نئی افق پر لے گئے، انسانیت کو نیا مقام عطا کر دیا، نبی کریمﷺ اُس معاشرے میں سچائی، عدل اور انصاف کا درس دے رہے ہیں، جہاں ان اقدار کا خواب و خیال بھی نہ تھا، آپﷺ معاشرے کو جھوٹ سے بچا رہے ہیں، قتل کی جگہ امن کا درس دے رہے ہیں۔

حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میں جنت کے مضافات میں ایک گھر میں اس شخص کیلئے پیشوا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، جھوٹ ترک کرنے والے کو جنت کے درمیان ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں اگرچہ وہ مزاح کے طور پر جھوٹ بولتا ہو اور اچھے اَخلاق والے کو جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں ( ابو داؤد: 4800)۔

حضرت ابو الدرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ کوئی بھی چیز میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں۔ (ابو داؤد: 4799 )۔ حضرت نواس بن سمعانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اچھا اخلاق ہی نیکی ہے اور برائی یہ ہے جو کرنے کے بعد تیرے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگوں کو تیری کی ہوئی برائی کا علم ہو جائے(صحیح مسلم: 2553)۔

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ

نبی کریمﷺ نے بدکاری کی جگہ حیا اور شرم کا درس دیا، شر م و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان فرق کی بنیادی علامت ہے، اگر لب و لہجے، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے، رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر (صحیح بخاری: 3484)، معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے (مستدرک للحاکم، :66)۔

اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے،رسولِ خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے، اسلامی تعلیمات فطرتِ انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوش نما لباس بنا دیتی ہیں۔

پرامن معاشرہ اور فرامین رسولﷺ

اسلام ہمیں معاشرے میں خیر و بھلائی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے، اس معاشرے کو امن و سکون کا پیکر بنانے کیلئے آپﷺ نے جو فرامین ارشاد فرمائے، عرب معاشرہ اس کا تصور تک نہ کر سکتا تھا، حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: اسلامی لشکر کسی بچے، عورت اور بوڑھے کو قتل نہیں کر سکتے، جس چشمے سے پانی نکلتا ہو اس کو خشک نہیں کر سکتے (چونکہ پانی انسانیت کو زندگی عطا کرتا ہے) اور جنگ میں حائل درختوں کے علاوہ سر سبز درختوں کو کاٹ نہیں سکتے، لاش کو مسخ نہیں کرسکتے، وعدے کو توڑ نہیں سکتے اور چوری و خیانت نہیں کر سکتے(سنن الکبریٰ للبیہقی: 17934) ۔

ایک اور مقام پر فرمایا: خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔(ابوداؤد: 3052)۔

آج سے چودہ سو سال قبل انسانیت کس حال میں تھی، کیسا جبر، بربریت، قتل و غارتگری اور دہشت گردی کا ماحول تھا، اس معاشرے کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ نبی کریمﷺ نے انسانیت کو جو روش دکھائی اور راستہ دکھایا، جو مذہب، دین، تعلیم اور سیرت دی، وہ ان تمام سے جدا تھی اور آقاﷺ نے اس بربریت کے ماحول سے انسانیت کو جدا کرتے ہوئے بلند کر دیا۔

جنت کی ضمانت

حضرت ابو شریحؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے ایسا عمل، راستہ اور طریقہ زندگی بتائیں جسے اپناؤں تو مجھے جنت مل جائے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: گفتگو مسکرا کر کیا کرو، تمہاری گفتگو میں نرمی و مٹھاس ہو، دشمنی عداوت کو مٹاؤ اور ہر طرف امن و سلامتی کو پھیلاؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔(صحیح ابن حبان:504)

سائل جنت میں جانے والا عمل پوچھ رہا ہے، آپﷺ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ پنجگانہ نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو، تسبیح کرو، اللہ اللہ کرو مگر نبی کریمﷺ نے چہرے کی مسکراہٹ کو جنت کا راستہ بتایا، جس معاشرے میں قتل و غارتگری ہو رہی ہے، وہاں نبی کریمﷺ امن وسلامتی پھیلانے کو جنت کا راستہ بتا رہے ہیں، جس معاشرے میں کسی کو بھوکے کی پرواہ نہیں، وہاں بھوکوں کو کھانا کھلانا جنت کا راستہ بتا رہے ہیں۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔