لندن: (دنیا نیوز) راجر فیڈرر نے ٹینس کی دنیا کو خیر آباد کہہ دیا ، کیریئر کے آخری میچ میں راجر نڈال کی جوڑی کو امریکی حریف جوڑی نے شکست دے دی، سوئس لیجنڈ فیڈرر نے 20 گرینڈ سلیم ٹائٹل اپنے نام کیے۔
فیڈرر کی کامیابی کا پہلا بڑا لمحہ 2001 میں ومبلڈن تھا جب 19 سالہ نوجوان کی حیثیت سے انہوں نے چوتھے راؤنڈ میں گراس کورٹ کے بادشاہ پیٹ سمپراس کو شکست دی۔
راجر پہلے ہی مارسیل میں اپنا پہلا اے ٹی پی ٹور فائنل جیت چکے تھے، اس سے پچھلے سال وہ سوئس ساتھی مارک روسیٹ سے ہار گئے تھے۔
21 سال کی عمر میں ویمبلڈن میں پہلا بڑا اعزاز جیتنے پر آخر کار ہو گیا" کا احساس فیڈرر کی صلاحیتوں کا پیمانہ تھا، اور ایک بار جب انہوں نے اس کا ذائقہ چکھا تو پھر رکے نہیں۔
سال 2004 سے 2007 تک فیڈرر نے 11 بڑے اعزازات جیتے جبکہ سال میں اوسطاً صرف 6 میچ ہارے۔
اس کے باوجود اس بات پر کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ آیا ایک شخص کا غلبہ کھیل کو خراب کر رہا ہے، راجر فیڈرر جب بھی جیتتے تھے تو ٹینس کی آرٹ کے طور پر ان کی تشریح کھیل میں تھوڑا سا مزید جادوئی احساس پیدا کر دیتی تھی۔
فرینچ اوپن کے فائنل میں رافیل نڈال سے شکست کے بعد وہ دوسری بار گرینڈ سلام کیلنڈر نہ جیت سکے، جو مردوں کے ٹینس میں صرف راڈ لیور اور ڈان بج جیت چکے تھے، اور یقیناً رافیل نڈال کے ساتھ ان کی مخالفت راجر فیڈرر کے کیریئر کی وضاحت کرتی ہے۔
رافیل نڈال نے نوواک جوکووچ کا بہت بار سامنا کیا لیکن سربیا کے اس کھلاڑی کو یہ کبھی نہیں بھولنے دیا گیا کہ وہ سوئس اور دھواں دھار ہسپانوی کھلاڑیوں کے دور میں ہیں۔
راجر فیڈرر اور رافیل نڈال کے ایک دوسرے کے خلاف کھیلے گئے سنسنی خیز میچوں میں 2008 میں ومبلڈن میں نڈال کی جیتی ہوئی پانچ سیٹوں کی میراتھن سے بہتر کوئی نہیں، یہ اس جوڑی کے درمیان مکمل تضاد تھا جس نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔
فیڈررکا کھیل خوبصورتی اورشائستگی کے متعلق تھا ان کی جسمانی ساخت اور مضبوطی شائد ہی نوٹ کی گئی ہو جبکہ نڈال کی طاقت، چہرے پر سفاکیت جیسی تھی اور سپین کے کھلاڑی اپنی ناقابل یقین ذہنی طاقت کے ذریعے فتوحات حاصل کرنے پر خوش تھے۔
راجر فیڈرر کا ذہنی حوصلہ بھی بہت بلند تھا، جس کے بغیر ان کی کامیابیاں ممکن نہیں تھیں لیکن محسوس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے لیے یہ صرف جیت یا ہار کے متعلق نہیں بلکہ اس بارے میں تھا کہ آپ نے کھیل کیسے کھیلا۔
اگرچہ رافیل نڈال کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے جو گذشتہ برسوں میں مضبوط ہوئے، سوئس کھلاڑی نے کبھی بھی اپنے اس یقین کو نہیں چھپایا کہ ان کا کھیل اپنے حریف سے برتر تھا۔
اس چیز نے فیڈرر کو مایوس کیا کہ دفاعی صلاحیتیں اوپر آنا شروع ہوگئیں اور شاید ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ٹینس میں حملہ کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے اتنے کامیاب رہے، لیکن فیڈرر پھر کبھی بھی کھیل پر اس طرح حاوی نہیں ہوسکے جس طرح وہ ان چار برسوں میں ہوئے تھے۔
راجر کا ایک بہترین لمحہ 2009 کے موسم گرما میں آیا جب رولینڈ گیروس میں نڈال کی پہلی شکست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بالآخر ومبلڈن کا تاج دوبارہ حاصل کرنے سے پہلے اپنے چوتھے فائنل میں فرنچ اوپن ٹرافی اٹھائی۔
تین سال بعد بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ان کے بڑے اعزاز جیتنے کے دن ختم ہو گئے ہیں، فیڈرر نے اینڈی مرے کو شکست دے کر ساتواں ومبلڈن ٹائٹل اپنے نام کیا۔
2013 میں کمر کے مسائل کی وجہ سے راجر کی فارم خراب ہوئی اور مسلسل 36 ویں بڑے اعزاز میں ان کی شکست پر فیڈرر نے خود پر اپنے شکوک و شبہات کا انکشاف کیا۔
35 سال کی عمر کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے سامنے مشکلات کھڑی تھیں لیکن فیڈرر نے عمر کو اپنے راستے میں کھڑا نہیں ہونے دیا، انہوں نے اپنے بچپن کے ہیرو سٹیفن ایڈبرگ کو کوچ کے طور پر بھرتی کیا اور 2014 میں دوبارہ ومبلڈن کے فائنل میں پہنچنے کے لیے اپنی راہ ہموار کی۔
کیریئر کے آخری میچ میں راجر نڈال کی جوڑی کو امریکی حریف جوڑی نے شکست دی۔