ٹوکیو: (ویب ڈیسک) خلا میں جانے کا انسانی خواب تو پورا ہو چکا ہے تاہم تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود یہ سفر انتہائی مہنگا اور مشکلات سے بھرپور ہے، سائنسدانوں نے اب یہ مسئلہ حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے تحت خلا میں لفٹ کی طرز پر جدید اور سستا سسٹم بنایا جائے گا جس کیلئے پہلے مرحلے پر جلد تجربات شروع کئے جائیں گے۔
جاپان کی شیزاؤکا یونیورسٹی اور جاپانی خلائی ایجنسی (جاکسا) اس ضمن میں اگلے ہفتے خلائی لفٹ کے ایک انتہائی چھوٹے ماڈل کے تجربات انجام دیں گے۔ یہ بہت سادہ اور آسان تجربہ ہے جس میں چھ سینٹی میٹر لمبے، تین سینٹی میٹر چوڑے اور اتنے ہی اونچے ایک ڈبے کو دس میٹر کے تار سے باندھا جائے گا۔ یہ تار دو چھوٹے مکعبی سیٹلائٹس (کیوب سیٹس) سے جڑا ہوگا اور ڈبہ اس دوران حرکت کرے گا جسے ماہرین انتہائی غور سے نوٹ کریں گے۔
شیزاؤکا یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ اگرچہ 2050 میں اس کی تعمیر شروع ہوگی لیکن پوری دنیا میں خلائی لفٹ کی تیاری کا یہ پہلا تجربہ ہوگا جس کا آغاز جاپان کررہا ہے۔ روسی سائنسداں کونسٹینٹن زیالکووسکی نے 1895 میں اسپیس ایلی ویٹر کا تصور پیش کیا تھا اور گزشتہ سو برس سے اس پر مختلف ماہرین نے کام کیا ہے۔
اس کے تحت ایک ایسے ہلکے پھلکے اور مضبوط تار کا تصور پیش کیا گیا تھا جس کا ایک سرا زمین سے جڑا ہوا ہو اور دوسرا خلا میں کسی چھوٹے شہابیے (پتھر) یا کسی سیٹلائٹ سے منسلک ہو اور اس کیبل پر کم وزنی گاڑیاں کسی لفٹ کی طرح اوپر اور نیچے آسکیں۔ اس طرح خلا تک رسائی بہت آسان ہوجائے گی۔
ایک جاپانی کنسٹرکشن کمپنی اوبایاسی نے بھی اس میں دلچسپی لی ہے تاکہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر 2050 تک خلائی سیڑھی کو کسی ٹھوس مرحلےتک پہنچایا جاسکے۔ تاہم اوبایاسی نے اعتراف کیا ہے کہ ابھی اس ضمن میں مناسب ٹیکنالوجی موجود نہیں لیکن ان کا منصوبہ جاری ہے تاکہ خلائی لفٹ کے تصور کو حقیقت سے قریب تک کیا جاسکے۔ منصوبے کے تحت زمین پر ایک خلائی پورٹ بنایا جائے گا جس سے 96 ہزار کلومیٹر طویل کاربن نینوٹیوب سے بنی کیبل کو کئی حصوں میں باندھا جائے گا۔ اس کے اگلے سرے پر کم ازکم ساڑھے بارہ ہزار ٹن کا کوئی وزن یا سیٹلائٹ بندھا ہوگا۔ اس طرح یہ تار زمین کے گھماؤ کے باوجود عین اسی طرح سیدھا رہے گا جس طرح پتھر کو ڈوری سے باندھ کر گھمایا جائے تو ڈوری بالکل سیدھی رہتی ہے۔
اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن جاپانی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے لاتعداد معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ اس وقت مدار میں ایک کلوگرام سامان پہنچانے پر دس سے چالیس ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ خلائی ڈور کے ذریعے یہ خرچ صرف ایک سو ڈالر رہ جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر خلائی لفٹ سے خلائی سفر اور سیاحت کو ایک نیا مفہوم میسر آئے گا۔