فن لینڈ: (ویب ڈیسک) قدرت نے صحتِ انسان کے تحفظ کیلئے ایسا نظام بنایا ہے کہ بہت سی بیماریوں سے صرف فطرت کے مطابق زندگی گزار کر ہی بچا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ ننھے بچوں کو اگر مائیں اپنا دودھ باقاعدگی سے پلائیں تو ان کے پیٹ میں جراثیم کی تعداد انتہائی کم ہو جاتی ہے اور بیماریوں میں جلد مبتلا ہونے کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔
اس وقت بیکٹیریا بہت چالاکی اور تیزی سے خود کو بدل رہے ہیں اور ہماری تقریباً تمام اینٹی بایوٹکس ان کے سامنے ناکارہ ہوتی جارہی ہیں۔ ماہرین نے اس رجحان کو دواؤں کا عالمی بحران بھی کہا ہے۔ اس ضمن میں نومولود بچوں میں دواؤں سے مزاحمت والے بیکٹیریا اور ماں کے دودھ سے انہیں ختم کرنے کے درمیان تعلق پر تحقیق کی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) کے مطابق ہر سال دو لاکھ ایسے بچے جنم لے رہے ہیں جو انفیکشن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اورموجودہ ادویہ سے ٹھیک نہیں ہو پاتے جبکہ بڑے ہسپتالوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہے اور 40 فیصد بچے کسی نہ کسی انفیکشن کے ساتھ جنم لیتے ہیں یا پھر بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور معیاری ادویہ بھی ان کا علاج نہیں کرسکتیں۔
فن لینڈ یونیورسٹی میں خرد حیاتیات کے ماہرین نے 16 ماؤں اور ان کے نومولود بچوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ مائیں اگر بچے کو چھ ماہ تک مسلسل اپنا دودھ پلائیں تو ان کے پیٹ میں اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کی مقدار کم ہوجاتی ہے جبکہ کم وقت تک دودھ پینے والے بچوں میں اس کی مقدار قدرے زیادہ دیکھی گئی۔ اس طرح ماں کے دودھ کی ایک اور افادیت سامنے آگئی ہے۔
ماہرینِ طب کا خیال ہے کہ جس حساب سے اینٹی بایوٹکس ناکام ہو رہی ہیں، اگر یہ رحجان جاری رہا تو ہم تشخیص و علاج کے عہدِ تاریک میں پہنچ جائیں گے۔ خدشہ ہے کہ اس سے 2050 تک ہر سال دس کروڑ افراد لقمہ اجل بننے لگیں گے۔