لاہور: (دنیا میگزین) جہاں ہسپتالوں کا فضلہ تلف کرنے کی بجائے نیلام کیا جائے، جہاں صاف پانی کے نام پر زہر ملتا ہو جہاں ملاٹ شدہ غذا کھلے عام فروخت ہوتی ہے، وہاں خطر ناک امراض ہمیشہ پھلتے پھولتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں پولیو کا مرض پھیل رہا ہے۔ اب بھی تقریباً تین کروڑ ستر لاکھ افراد ایسے ہیں جو اس وائرس کا شکار ہیں، ان میں سے 70 فیصد افریقہ میں موجود ہیں۔
پاکستان جیسا ملک جہاں پولیو کیخلاف اس حد تک کام کیا جا رہا ہے کہ ہر گھر ہر سکول ہر مدرسے میں جاکر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسین پلائی جاتی ہے اور جو شخص اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلانے سے انکار کرتا ہے۔
اس کیخلاف مقدمہ درج کردیا جاتا ہے کیوں کہ پولیو کنٹرول کے ادارے یہ سمجھتے ہیں یہ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے ایسا کوئی بھی سخت عمل سامنے نہیں آ رہا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
صرف گزشتہ برس ایک کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ملک بھر میں اس وقت ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 23 ہزار سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد 165000 ہے جبکہ ان میں سے صرف 23757 افراد نے متعلقہ سینٹر میں اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔
قومی اسمبلی میں ایڈز کے صرف انہی افراد کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے۔جب کہ ایک ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد دیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
گزشتہ دنوں لاڑکانہ کے نواحی علاقے رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔ یہ تعداد 751 سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 604 بچے شامل ہیں۔ جن افراد میں ایڈز کی تشخیص ہوئی وہ نجی کلینک میں علاج کی غرض سے جاتے تھے۔ وہ کلینک ماہر اطفال ڈاکٹر مظفر گھانگھرو چلا رہا تھا۔ شک کی بنیاد پر جب ڈاکٹرکا ایڈز کیلئے ایچ آئی وی ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ مثبت آیا تو اس ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا نے سندھ اسمبلی میں جو رپورٹ پیش کی ہے، اس کے مطابق ڈاکٹرایک ہی ڈرپ کٹ اور انجکشن بچوں پر استعمال کر رہا تھا۔آخر کیسے ان جیسے سفاک لوگ ڈاکٹر بنا کر ہم پر مسلط کردیئے جاتے ہیں جن میں نہ تو اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی شرم و حیا۔ ڈاکٹر ہو کر اتنی بڑی لاپرواہی، جس کی وجہ سے معصوم بچے بھی اس جان لیوا بیماری کی لپیٹ میں آگئے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر سکندر میمن کے مطابق لاڑکانہ اور اس کی تحصیل رتوڈیرو میں 25 اپریل 2019 سے کی جانے والی اسکریننگ میں اب تک 337 افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر افراد کی تعداد میں تشخیصی عمل جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے،337 میں سے بد قسمتی سے بچوں کی تعداد 250 سے زائد ہے جوکہ تشویشناک بات ہے۔
شکارپور میں 116 افراد کے سیمپل لیے گئے جن میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی، خیرپور میں 3 رجسٹرڈ مریض ہیں جن کا علاج چل رہا ہے۔
میرپورخاص اور کراچی میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں، چند روز قبل سیکریٹری صحت نے لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال لاڑکانہ کا افتتاح کیا جس میں ایک خصوصی وارڈ قائم کیا گیا ہے جہاں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا نئے بچوں کا علاج کیا جا سکے گا۔
وفاقی وزارتِ صحت کے تحت ایڈز کو روکنے اور کنٹرول کرنے کیلئے 1987 میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کی بنیاد رکھی گئی۔ این اے سی پی کی دسمبر 2018ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار لوگ ایڈز سے متاثر ہیں لیکن رجسٹرڈ تعداد صرف 23,757 ہے، جبکہ علاج صرف 15,821 لوگوں کا ہو رہا ہے۔
ایچ آئی وی کے وبائی مرض بننے میں تین مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ پورے ملک میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے کم ہو، دوسرا مرحلہ متاثرہ افراد میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے زیادہ ہو، اور آخری مرحلہ جب ایچ آئی وی انفیکشن کا تناسب خون دینے والے افراد یا حاملہ خواتین میں 1 فیصد سے زیادہ ہو جائے۔
ہمارے ملک میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں جو عوامل شامل ہیں، ان میں غربت، تعلیم کی کمی، اس بیماری کے ٹرانسمیشن کے طریقوں کے بارے میں پتا نہ ہونا، لوگوں کے منفی رویہ کی وجہ سے اس بیماری کا ٹیسٹ نہ کروانا، یا پازیٹیو ٹیسٹ آنے پر چھپانا وغیرہ زیادہ نمایاں ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان 2003 کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے زیادہ کردار انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے افراد کا ہے جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 27.2 فیصد ہے۔ دوسری بڑی وجہ ورکرز ہیں جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 4 سے 6 فیصد ہے۔
سندھ کے مختلف شہروں میںایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کے پیش نظر قائم کیمپس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے بجائے عوام میں بے چینی، ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سبب بن رہے ہیں، جب کہ حکومت مرض کی روک تھام کے بجائے صرف مرض کی تشخیص میں مصروف ہے۔
سندھ بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ بھر سے ساڑھے 10 ہزار ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا رجسٹرڈ مریضوں کے علاوہ سندھ میں ہزاروں کیسز غیر رجسٹرڈہیں، ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کیلیے سندھ حکومت اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت سندھ کے ان شہروں جہاں کیسز زیادہ ہیں تشخیصی کیمپس قائم کر دیے گئے جہاں روزانہ کی بنیاد پر عام ڈاکٹر عوام کے ٹیسٹ کرتے ہیں اور ان میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کرتے ہیں۔
اس کے بعد ان شہروں میں ڈاکٹر نہ ہونے اور علاج کے طریقہ کار سے لاعلم ہونے کی وجہ سے عوام علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں جو غریب عوام کے لیے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔
اس حوالے سے سندھ کنٹرول ایڈز پروگرام کے سابق منیجر اور ماہر ایچ آئی وی ایڈز فزیشن ڈاکٹر شرف علی شاہ نے بتایا کہ لاڑکانہ میں پہلا آؤٹ بریک انجیکٹنگ ڈرگ یوزرزکا کیس 2003 میں سامنے آیا۔
دوسرا آؤٹ بریک کیس 2016 میں ڈائیلیسز کے مریضوں کا ہوا اور یہ تیسرا آؤٹ بریک ایچ آئی وی ایڈز کا ہے جس میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے بڑھتے ہوئے کیسز کی پیچیدہ صورتحال غیر متوقع نہیں ہے۔ سندھ بھر میں تشخیصی کیمپ بنائے ہیں جہاں بچوں اور بڑوں میں ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کی جا رہی ہے جبکہ ایڈز کی تشخیص کرنا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کام ہے جو کیئر پرووائڈر اور جنرل پریکٹشنرز ایک طریقہ کار کے تحت ٹیسٹ کرتے ہیں۔
سندھ حکومت کو ٹیسٹنگ سینٹرز کھولنے کی ضرورت ہے جہاں قابل اور تربیت یافتہ پریکٹشنرز کو تعینات کیا جائے، جگہ جگہ قائم کیمپس میں تشخیص کے بعد مریضوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور علاج کے طریقہ کار سے لاعلمی کے باعث مریض ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سندھ حکومت سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے منیجر کا انتخاب میرٹ پر کرے ناتجربہ کار فرد کا انتخاب بڑھتے کیسز پر قابو نہ پانے کی ایک وجہ ہے، سندھ حکومت ڈاکٹروں کو سرنجوں کے صحیح استعمال کے طریقہ کار، معیاری خون کی محفوظ طریقے سے منتقلی کے حوالے سے آگاہی دینے کیلیے پروگرام شروع کرے ایچ آئی وی ایڈز کے متاثرہ افراد کی پری ٹیسٹ اور پوسٹ ٹیسٹ کاؤنسلنگ ہونی چاہیے تاکہ وہ کسی پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں ایچ آئی وی ایڈز سے شدید متاثرہ شہر لاڑکانہ میں میڈیکل یونیورسٹی اور بچوں کا اسپتال موجود ہے۔
اس کے باوجود کوئی قابل ڈاکٹر موجود نہیں ہے جو ان مریضوں کا علاج کر سکے۔ ڈبلیو ایچ او 1990 سے اب تک ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کو کنٹرول کرنے کیلئے پاکستان کی 100 ملین ڈالر کی مدد کرچکا ہے جس میں ایڈزکے حوالے سے آگاہی مہم، فری سکریننگ ٹیسٹ اور اس بیماری کا علاج وغیرہ شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے لاڑکانہ کو ’’گریڈ 2 ایمرجنسی‘‘ ڈکلیئر کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت رتوڈیرو میں فوری طور پر 1.5 ملین ڈالرز (225 ملین روپے) کی ضرورت ہے لیکن فنڈز صرف 200,000 ڈالرز موجود ہیں۔ یعنی مالی امداد کا فرق 1.3 ملین ڈالرز (195 ملین روپے) ہے۔ اس کی دہائی کسے دیں؟ وفاقی حکومت کو یا سندھ حکومت کو؟ آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔
ایڈز کے پھیلاؤ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی لوگوں کہ ذہن میں موجود ہیں کہ یہ مرض ساتھ کھانا کھانے سے،ہاتھ ملانے سے یا ایک ہی فضا میں سانس لینے سے پھیلتا ہے جس کی وجہ سے ایک وقت تک ان مریضوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔معاشرے میں اس مرض کے شکار افراد کوکسی حد تک امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ سب باتیں درست نہیں ہیں۔
ایڈز کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ایڈز کے مریض سے جنسی تعلق کے نتیجے میں ایڈز پھیل سکتا ہے۔متاثرہ شخص کے خون سے بھی ایڈز پھیل سکتا ہے جبکہ اس کی ایک بڑی وجہ استعمال شدہ سرنج یا انجکشن کا دوبارہ استعمال بھی ہے۔پاکستان میں کئی افراد انجکشن کی بدولت نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔لہٰذا اس قسم کے نشے میں مبتلا افراد اس بیماری کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسی طرح ترقی کے اس دور میں ابھی بھی اسپتالوں میں مریضوں کو غیر تصدیق شدہ لیبارٹریوں سے حاصل کردہ خون لگا دیا جاتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں چھوٹے کلینکس میں مریضوں کو 99فیصد غیر ضروری انجکشن لگایا جاتا ہے۔
ایچ آئی وی کا آغاز 1920 میں کانگو سے ہوا لیکن 1980 تک معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز سے متاثر تھے۔ یہ بیماری چیمپینزی (بندر) سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔ کسی ایک انسان کی غلط حرکت کی سزا آج پوری انسانیت بھگت رہی ہے۔ ایڈز کا پہلا کیس 1981 میں سان فرانسسکو، امریکا میں رپورٹ ہوا تھا، اور تب سے اب تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 3.5 کروڑ لوگ اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں 3.69 کروڑ لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز کے ساتھ موجود ہیں۔
ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو ہمارے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) ہی کو نشانہ بناتا ہے، جس کی وجہ سے انفیکشنز اور بہت سی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری ایڈز کا باعث بنتی ہے جو اس کی ایڈوانس اور آخری اسٹیج ہے۔ایچ آئی وی کا ٹیسٹ اگر پازیٹیو آتا ہے تو اس کیلئے مختلف ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں جنہیں مجموعی طور پر ’’اے آر ٹی‘‘ (اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی) کہا جاتا ہے۔ اگر اس تھراپی کو باقاعدگی سے کیا جائے تو نہ صرف مریض کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ایڈز لاحق ہونے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
ایچ آئی وی جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خون لگنے، دوران حمل ماں سے بچے میں، دوران پیدائش، یا بچے کو دودھ پلانے سے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کی بظاہر کوئی علامات نہیں۔ اس بیماری کے آغاز میں بخار ہونا، سر میں درد، جوڑوں میں درد، گلے میں درد ہونا شامل ہیں۔ یہ علامات اس بیماری سے مخصوص نہیں، اس لیے اس بیماری کے بارے پتا نہیں چل پاتا۔ اس بیماری کی خاص علامات (بار بار بخار ہونا، رات میں پسینہ آنا، زبان یا منہ میں سفید دھبوں کا ہونا، وزن کا کم ہونا، غیر معمولی تھکاوٹ اور کمزوری، جلد پر نشانات وغیرہ) ظاہر ہونے میں 10 سال لگتے ہیں۔
تب تک یہ بیماری ایڈز کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے، جس کا اب تک کوئی علاج نہیں۔اس بیماری کا جلدی پتا چلنا بہت ضروری ہے۔ جتنی دیر سے پتا چلے گا، ایڈز کے امکانات بھی بڑھتے جائیں گے۔ اس لیے اس بیماری کا کم از کم سال میں ایک بار ٹیسٹ ضرور کروائیے۔ ٹیسٹ پازیٹیو آنے پر علاج فوراً شروع کردیجیے اور دوسروں میں اسے منتقل نہ ہونے دیجیے، یہ اخلاقیات کا تقاضا ہے۔معاشرتی طور پر بھی یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ بیماری صرف سیکس سے ہی نہیں پھیلتی۔
اس لیے ایسے لوگوں سے بدظن نہ ہوں، کیوں کہ انہیں اس وقت سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ ڈاکٹر مظفر گھانگھرو جیسے سفاک لوگوں کی اس دنیا میں کوئی کمی نہیں۔ خود کو اور اپنوں کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کیلیے ہمیشہ اسکریننگ شدہ انجکشن اور خون کا ہی استعمال کیجیے۔
سوا ل یہ ہے صحت عا مہ کی سہولتوں کے حوالے سے پاکستان اس قدر کیوں پیچھے ہیں۔اس لیے کہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میںصحت عامہ کے مسائل نہیں رہے ہیں۔