لاہور: (روزنامہ دنیا) بینگن کو دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ بینگن کو سبزی مانا جاتا ہے لیکن تکنیکی اعتبار سے یہ پھل ہے۔
بینگن مختلف سائز اور رنگوں میں ہوتے ہیں۔ سب سے عام جامنی رنگ کے بینگن ہیں لیکن یہ سرخ، سبز اور کالے رنگوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ صحت کے لیے بہت مفید ہیں۔ آئیے ان سے آگاہ ہوتے ہیں۔
غذائیت سے بھرپور
بینگن میں حیاتین، معدنیات، اور ریشہ زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ خام یا کچے ایک کپ (82 گرام) بینگن میں 20 حرارے، پانچ گرام کاربوہائیڈریٹ، تین گرام ریشہ، ایک گرام لحمیات، روزانہ کی ضرورت کا 10 فیصد میگنیز، پانچ فیصد فولیٹ، پانچ فیصد پوٹاشیم، چار فیصد وٹامن ’’کے‘‘ اور تین فیصد وٹامن سی ہوتے ہیں۔ بینگن میں تھوڑی مقدار میں چند دیگر اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں نیاسین، میگنیشیم اور تانبا شامل ہیں۔
اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور
مختلف طرح کے حیاتین اور معدنیات کے علاوہ بینگن میں بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں۔ اینٹی آکسیڈنٹ وہ مادے ہیں جو جسم کو ’’فری ریڈیکل‘‘ کہلانے والے مواد کے نقصان سے بچاتے ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی آکسیڈنٹس بہت سے دیرینہ امراض سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں دل کے امراض اور سرطان شامل ہیں۔ بینگن انتھوسیانینز کا شاندار ذریعہ ہیں۔ یہ ایک طرح کا قدرتی روغن ہے جس میں اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ سبزی کو رنگ عطا کرتا ہے۔ بینگن میں ناسونین کہلانے والے انتھوسیانینز خاص طور پر فائدہ مند ہیں اور یہ امر بہت سی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے۔
امراضِ قلب میں کمی
اینٹی آکسیڈنٹ مواد کی موجودگی کے سبب تحقیقات سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ بینگن امراضِ قلب کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ ایک تحقیق میں ایسے خرگوشوں کو، جن میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ تھی، دو ہفتے تک روزانہ 0.3 اونس یا 10 ملی لیٹر بینگن کا رس دیا گیا۔ تحقیق کے اختتام پر معلوم ہوا کہ ان میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسیرائیڈز کی سطح کم ہوگئی تھی۔ ان دونوں کی سطح اگر بڑھ جائے تو دل کے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ بینگن دل کی حفاظت کرتا ہے۔
اگرچہ مذکورہ تحقیقات اہم ہیں لیکن یہ ابھی تک ٹیسٹ ٹیوب میں کی گئیں یا انہیں جانوروں پر آزمایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت کو محسوس کیا جاتا ہے۔
خون میں شکر کا کنٹرول
خوراک میں بینگن کی شمولیت خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول میں رکھ سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بینگن میں ریشے کی مقدار کا زیادہ ہونا ہے جو اپنی اصل حالت میں نظام انہضام میں سے گزر جاتا ہے۔
ریشہ جسم میں شکر کے انجذاب اور انہضام کی رفتار کو کم کرتا ہے۔ اس سے شکر کی سطح مستحکم رہتی ہے اور اس میں اچانک اضافہ نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ ٹیوب میں ہونے والی ایک تحقیق میں بینگن کے پولی فینول سے بھرپور مواد کی جانچ کی گئی۔
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ شکر کے انجذاب پر اثر انداز ہونے والے خامروں کی سطح کو کم کرتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو تجویز کردہ غذا میں بینگن شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریشے سے بھرپور دیگر سبزیوں اور اناجوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
وزن میں کمی
بینگن میں ریشہ زیادہ اور حرارے کم ہوتے ہیں، اس لیے یہ وزن کم کرنے کے لیے شاندار غذا ہے۔ ریشے کے باعث غذا نظام انہضام کے راستے سے آہستہ گزرتی ہے اور اس سے پیٹ بھرا بھرا سا رہتا ہے، اس لیے جسم میں حرارے کم جذب ہوتے ہیں۔ زیادہ حراروں والے کھانے میں توازن قائم کرنے کے لیے بینگن کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
سرطان سے مقابلہ
بینگن میں ایسے اجزا شامل ہیں جن سے سرطان کے خلیوں سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر سولاسوڈائن رامنوسیل گلیکوسائیڈ (ایس آر جیز) ایسے مرکبات ہیں جو بینگن سمیت چند سبزیوں میں پائے جاتے ہیں۔
جانوروں پر ہونے والی چند تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ ایس آر جیز سرطانی خلیوں کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں اور ان کی دوبارہ نمو کے امکان کو بھی کم کرتے ہیں۔
ان کا جلد کے سرطان کے خلاف اثر زیادہ دیکھا گیا ہے۔ 200 کے قریب تحقیقات کے جائزے سے معلوم ہوا کہ سبزیاں اور پھل کھانے والے لبلبے، معدے، قولون، مثانے، گردن اور سینے کے سرطان سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔ بینگن کو بھونا جا سکتا ہے، بیک کیا جا سکتا ہے، یہ گِرل ہو سکتا ہے اور کئی طرح کی ڈشز کی زینت بن سکتا ہے۔ یوں آپ باآسانی کم حراروں اور زیادہ ریشے والا ایک اچھا اور مزیدار کھانا تیار کر سکتے ہیں۔
اخذ وترجمہ: رضوان عطا