انٹارکٹیکا میں ’’لاہور‘‘ جتنا برفانی تودہ برفانی خطے سے علیحدہ

Last Updated On 07 October,2019 03:45 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث نقصانات کی تفصیلات وقتاً فوقتاً دنیا کے سامنے آ رہی ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف بڑے ممالک ایک سمجھوتہ پر پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں، پیرس میں ہونے والے معاہدے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بائیکاٹ کے بعد سے دنیا بھر کے سائنسدان ماحولیاتی تبدیلیوں پر صدائیں بلند کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر ماحولیاتی تبدیلی پر فوراً ایکشن نہ لیا گیا تو دنیامیں بہت بڑی تباہی آئے گی۔ سائنسدانوں کے خدشات اب صحیح ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں جس کی ایک مثال براعظم انٹارکٹیکا میں انتہائی بڑا برفانی تودہ ایمری آئس شیلف نامی برفانی خطے سے ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا میں جو تودہ علیحدہ ہوا ہے یہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران اس برفانی خطے سے علیحدہ ہونے والا سب سے بڑا برفانی تودہ ہے جس کا سائز پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک اور پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور جتنا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق گرنے والے تودے کا رقبہ 1636 مربع کلومیٹر ہے اور اسے ڈی 28 کا نام دیا گیا ہے۔ تودے کا سائز بڑا ہونے کی وجہ سے اس پر نظر رکھی جائے گی کیونکہ مستقبل میں جہاز رانی کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

1960ء کی دہائی کے اوائل سے ایمری آئس شیلف سے اتنا بڑا برفانی تودہ علیحدہ نہیں ہوا ہے۔ ایمری آئس شیلف نامی برفانی خطے کا رقبہ 9000 مربع کلومیٹر ہے۔ ایمری انٹارکٹیکا میں برف کا تیسرا سب سے بڑا خطہ ہے، اور انٹارکٹیکا کے مشرق میں نکاسی آب کا اہم ذریعہ ہے۔ برفانی خطہ دراصل ان گلیشیئرز کی ایک توسیع ہے جو زمین سے سِرک کر سمندر میں آ گرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق برفانی تودوں کو سمندر میں گرا کر گلیشیئرز اپنا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ سائنسدانوں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس برفانی خطے سے برفانی تودہ علیحدہ ہونے جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ توجہ اس خطے کے مشرقی علاقوں پر مرکوز کی گئی جو کہ اب ٹوٹ کر علیحدہ ہو چکا ہے۔

ایمری آئس شیلف کا ایک حصہ ہے جسے پیار سے  لوز ٹوتھ  یا ہلنے والا دانت کہا جاتا ہے۔ عرفیت کی وجہ یہ ہے کہ سیٹلائیٹ تصاویر میں کسی چھوٹے بچے کے دانت کی طرح نظر آتا ہے جو ٹوٹنے کے قریب ہو ان دونوں برفانی علاقے کا رفٹ سسٹم ایک ہی ہے۔

سکرپس انسٹیٹیوشن آف اوشیانوگرافی سے وابستہ پروفیسر ہیلن فریکر نے 2002ء میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ لوز ٹوتھ 2010 سے 2015ء کے درمیان کسی بھی وقت ٹوٹ کر علیحدہ ہو جائے گا۔ میں اتنے برسوں کے بعد برفانی تودے کو برفانی خطے سے علیحدہ ہونے کا عمل دیکھنے جا رہی ہوں۔ ہمیں معلوم تھا آخر کار ایسا ہو گا، تاہم یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں ہم نے توقع کی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کا موسمیاتی تبدیلی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 90 کی دہائی سے موصول ہونے والے سیٹلائیٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ ایمری برفانی خطہ قرب و جوار کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے ہے اس بات سے قطع نظر کہ گرمیوں میں اس کی سطح بہت زیادہ پگھلتی ہے۔

پروفیسر فریکر کا کہنا ہے کہ اگرچہ انٹارکٹیکا میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر پریشان ہونا چاہیے مگر اس مخصوص برفانی خطے میں ایسا کچھ نہیں جو خطرے کا شکار ہو۔

آسٹریلین انٹارکٹک ڈویژن ایمری خطے پر جاننے کے لیے نگاہ رکھے گی کہ آیا اس عمل کا کوئی ردِعمل تو نہیں گا۔ ڈویژن کے سائنسدانوں نے خطے میں آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ممکن ہے اتنے بڑے برفانی تودے کا علیحدہ ہونا برفانی خطے کے سامنے کی سطحی شکل کو بدل دے گا۔ اور دراڑوں کے رویے اور یہاں تک لوز ٹوتھ کے استحکام پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

 

ڈی 28 نامی اس نئے برفانی تودے کی موٹائی 210 میٹر ہے جبکہ اس میں 315 بلین ٹن برف ہے۔ اس تودے کو یہ نام امریکی نیشنل آئس سینٹر کی جانب سے کی گئی درجہ بندی کے تحت دیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی کے تحت انٹارکٹیکا کو مختلف حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ ساحلی کرنٹ اور ہوائیں ڈی 28 کو مغرب کی جانب دھکیلیں گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تودے کو ٹوٹنے اور مکمل طور پر پگھلنے میں بہت سے سال لگیں گے۔