لاہور: (ویب ڈیسک) ورلڈ انٹليکچوئل پراپرٹی آرگنائزيشن (WIPO) کی تازہ رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ ايشيائی براعظم ٹيکنالوجی کے ميدان ميں باقی دنيا کے مقابلے ميں سب سے تيزی سے ترقی کر رہا ہے۔
2018 ميں دنيا بھر ميں 3.3 ملين ’پيٹنٹ ايپليکيشنز‘ جمع کرائی گئيں، جن کی قريب نصف تعداد چين ميں جمع کرائی گئی۔ پيٹنٹ در اصل کسی نئے شے يا سروس کے کاپی رائٹ کے عمل کو کہا جاتا ہے۔
کسی بھی نئی شے کو اس کے تخليق کار کے ساتھ رجسٹر کرانے سے ديگر لوگ اس کی نقل نہيں کر سکتے۔ وائپو (WIPO) کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال ٹريڈ مارک، صنعتی ذيزائن ماڈل اور پيٹنٹس کی قريب دو تہائی تعداد ايشيائی براعظم کے ممالک ميں جمع کرائی گئيں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تکنيکی ترقی ميں يہ خطہ دنيا کے ديگر خطوں کے مقابلے ميں زيادہ تيزی سے ترقی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذيلی ادارے ورلڈ انٹليکچوئل پراپرٹی آرگنائزيشن کے ڈائريکٹر جنرل فرانسس گری نے جنيوا سے جاری کردہ اپنے بيان ميں کہا، ’’ايشيا دنيا بھر ميں اختراعات یا انوویشن کا گڑھ بن گيا ہے۔‘‘
وائپو کے مطابق سن 2018 ميں سن 2017 کے مقابلے ميں جمع کرائے گئے نئے پيٹنٹس کی تعداد ميں 5.2 فيصد کا اضافہ نوٹ کيا گيا۔ رپورٹ کے ليے اس ادارے نے اس کا بھی جائزہ ليا کہ نئے پيٹنٹس کا اندارج کرانے والوں ميں خواتين کا تناسب کتنا تھا۔
اس دوران پتہ چلا کہ چين، جنوبی کوريا اور سپين ہی ايسے ممالک ہيں جہاں جمع کرائی گئی مجموعی پيٹنٹ ايپليکيشنز ميں 20 سے 30 فيصد عورتیں بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب آسٹريا، جاپان اور جرمنی ميں 2018 ميں جع کرائی گئی مجموعی پيٹنٹ ايپليکيشنز ميں صرف دس فيصد کے قريب تعداد عورتوں کی تھی۔
پچھلے سال مجموعی طور پر سب سے زيادہ پيٹنٹ ايپليکيشنز امریکی شہریوں نے جمع کرائی تھی، امریکا کے بعد اس عمل میں جاپان اور جرمنی کے تحقیق کار شریک تھے۔