لاہور: (روزنامہ دنیا) جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا دینا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ ایسا کرنے کے لیے پہلا قدم یہ جاننا ہے کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔ جھوٹ پکڑنے والی مشین کیسے کام کرتی ہے؟
پولی گراف ٹیسٹ جھوٹ پکڑنے کا ایک ٹیسٹ ہے جس میں سوالات کے جسمانی ردعمل کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے کہ فرد نے جھوٹ بولا یا نہیں؟
اس ٹیسٹ کی درستی پر بہت سے اداروں نے سوالات اٹھائے ہیں جن میں نیشنل اکیڈمی آف سائنس، یو ایس کانگریس آفس آف ٹیکنالوجی اسسمنٹ اور امریکن فزیالوجیکل ایسوسی ایشن شامل ہیں۔
بہرحال اس ٹیسٹ کا استعمال ملازمتوں کی درخواست دینے والوں پر بھی کیا جاتا ہے اور تفتیش کے دوران مجرموں پر بھی۔ ٹیسٹ کے دوران فرد سے کہا جاتا ہے کہ وہ تمام سوالات کے جواب دے لیکن اس ٹیسٹ کا مقصد ’’سفید جھوٹ‘‘ پکڑنا ہوتا ہے۔
اس دوران بعض حقیقتاً ایماندار لوگوں کی غلط نشاندہی کر دی جاتی ہے اور بعض افراد بچ نکلتے ہیں۔ ’اچھی‘ خبر یہ ہے کہ جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا دینا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ ایسا کرنے کے لیے پہلا قدم یہ جاننا ہے کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔ جھوٹ پکڑنے والی مشین کیسے کام کرتی ہے؟
جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ صرف پولی گراف مشین تک محدود نہیں ہے۔ ٹیسٹ لینے والا فرد کے ٹیسٹ مرکز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اپنا مشاہدہ شروع کر دیتا ہے۔
ماہر پولی گرافر جھوٹ سے منسلک غیرزبانی علامات پر بھی توجہ دیتے اور انہیں ریکارڈ کرتے ہیں۔ یوں بھی آپ جو ’’بتانا‘‘ چاہتے ہیں، بتا بھی سکتے ہیں۔
پولی گراف کی مشین سانس کی رفتار، فشارِ خون، نبض کی رفتار اور پسینے کو ریکارڈ کرتی ہے۔ زیادہ نفیس مشینیں دماغ کی ’’مگنیٹک ریزوننس امیجنگ‘‘ (ایم آر آئی) کرتی ہیں۔
غیر متعلقہ، تشخیصی اور متعلقہ سوالات کے جسمانی ردعمل کا تقابل کرکے جھوٹ کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ سوالات کو دو یا تین بار دہرایا جا سکتا ہے۔ جس کا ٹیسٹ لیا جا رہا ہو، اس سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولے تا کہ ردعمل دیکھ کر ممتحن کوئی حد یا بیس لائن متعین کر لے۔
اس ٹیسٹ کو مکمل ہونے میں روایتی طور پر ایک سے تین گھنٹے لگتے ہیں، جس میں پسِ منظر کی جانچ، طبی حالت کا جائزہ، ٹیسٹ کی وضاحت، پولی گراف کا عمل اور فالو اپ شامل ہیں۔
زیادہ تر نصیحتیں کام نہیں کرتیں
جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ کو کیسے پاس کرنا ہے، اس بارے میں انٹرنیٹ پر مواد بھرا پڑا ہے لیکن اس میں پیش کردہ زیادہ تر خیالات مؤثر نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اپنی زبان کو دانتوں سے کاٹنا یا اپنے جوتے میں چبھنے والی شے ڈالنا تا کہ تکلیف کے احساس سے فشار خون پسینے کی سطح پر اثر انداز نہ ہو۔ اسی طرح سچ بولتے ہوئے جھوٹ کو تصور میں لانا اور جھوٹ بولتے ہوئے سچ کو تصور میں لانا کام نہیں کرتا کیونکہ اس سے جھوٹ اور سچ میں امتیاز قائم ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں، اس ٹیسٹ کی بنیاد جھوٹ اور سچ میں امتیاز ہے۔
ٹیسٹ کو پچھاڑنے کے دو راستے
دراصل اس ٹیسٹ کو پچھاڑنے کے دو اچھے راستے ہیں، ایک وہ جو بھی پوچھیں آپ مکمل طور پر ’’زِن‘‘ (zen) بن جائیں (یعنی مکمل حالتِ سکون میں آجائیں)۔ یاد رکھیں زیادہ تر لوگ اس میں مہارت حاصل نہیں کر سکتے۔ جبکہ دوسرے طریقے میں پورے ٹیسٹ میں مکمل طور پر پریشان رہیں۔
7 ٹِپس آزما کر دیکھیں
چاہے جھوٹ بولنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، جھوٹ پکڑنے کے ٹیسٹ میں زیادہ تر لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اعصاب کا ردعمل غالباً جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اپنا کھیل کھیلنے کے لیے آپ کو اپنے اوپر انتہا درجے کا خوف طاری کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ اس ٹیسٹ کو دھوکا دینا ذہن کا کھیل ہے، جس سے فطری طور پر جسمانی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
ذیل میں کچھ ٹِپس دی جا رہی ہیں
اگر آپ نے ٹیسٹ کو پچھاڑنا ہے تو پورے ٹیسٹ کے دوران سب سے بڑا جوا اپنے آپ کو اپ سیٹ، خوف زدہ اور ابہام کا شکار رکھ کر کھیلیں۔ اندرونی اضطراب کے باوجود اپنے ظاہر کو پُرسکون اور مطمئن رکھنا ہے۔ اپنے سب سے برے تجربے یا ریاضی کے مشکل سوالات کے حل کو ذہن میں رکھیں۔ جو بھی کریں آپ کو مستقل سرگرمی یا دباؤ میں رہنا ہے۔ اگر کوئی ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں آپ کو پریشانی ہے، تو جواب دینے سے پہلے خیال کریں کہ ہر سوال وہی ہے۔
ہر سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ وقت لگائیں۔ اس کی بطور غیر متعلقہ، متعلقہ یا شناختی (diagnostic ) سوال شناخت کریں۔ غیر متعلقہ سوالات میں آپ کا نام پوچھنا یا یہ کہ کمرہ روشن ہے، شامل ہیں۔ متعلقہ سوالات میں مثال کے طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ ’’کیا آپ جرم کے بارے میں جانتے ہیں؟‘‘ شناختی سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب زیادہ تر کو ’’ہاں‘‘ میں دینا چاہیے لیکن ان میں جھوٹ بولے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ’’کیا آپ نے اپنے کام کی جگہ سے کبھی کوئی چیز لی ہے؟‘‘ یا ’’آپ نے کبھی مشکل سے نکلنے کے لیے جھوٹ بولا ہے؟‘‘ ۳۔ شناختی سوالات میں اپنے سانس کی رفتار کو بدلیں، لیکن اگلے سوال کا جواب دینے سے پہلے معمول کے مطابق سانس لینے لگیں۔ اس عمل میں آپ قدرے ردوبدل بھی کر سکتے ہیں۔
جب آپ سوالات کا جواب دیں تو جم کر دیں، ہچکچائیں مت اور مزاح کے بغیر دیں۔ تعاون کرتے رہیں لیکن مذاق نہ کریں یا بہت زیادہ دوستانہ رویہ ظاہر نہ کریں۔
جہاں کہیں ممکن ہو جواب ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں دیں۔ جوابات کی وضاحت نہ کریں، نہ تفصیل بتائیں ، نہ وضاحت کرنے کی پیش کش کریں۔ اگر آپ کو کسی سوال کے جواب کے بارے میں مزید بتانے کا کہا جائے تو جواب دیں ’’آپ مجھ سے کیا کہلوانا چاہتے ہیں؟‘‘ یا ’’اس کے بارے میں حقیقتاً کچھ کہنے والی بات نہیں ہے۔‘‘
اگر آپ پر جھوٹ کا الزام لگادیا جائے تو اس سے متاثر نہ ہوں۔ اگر ایسا کیا جائے تو زیادہ اپ سیٹ اور ابہام میں مبتلا دکھائی دیں۔ دراصل ہو سکتا ہے شناختی سوالات کے جوابات ممتحن کو متضاد نتائج دے دیے ہوں، اس لیے مزید سوالات کے لیے تیار رہیں۔
ٹیسٹ سے قبل اپنے جوابی اقدامات کی مشق کریں۔ کسی سے کہیں کہ وہ ممکنہ سوالات پوچھے۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی سانس کی رفتار اور ردعمل پر نظر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ ان ٹِپس سے آپ ٹیسٹ کو بے نتیجہ کر سکتے ہیں یا بلاجواز بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے ملازمت کے حصول کے دوران ایسا کیا تو آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
زیادہ تر معاملوں میں سب سے آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ ٹیسٹ پر اثرانداز ہونے والی دوائیں: ادویات یا طبی حالتیں پولی گراف ٹیسٹ پر اثرانداز ہو سکتی ہیں، جن سے ٹیسٹ عموماً بے نتیجہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے سوالات پوچھنے سے قبل ادویات کے اثرات کا ٹیسٹ بھی عام طور پر کیا جاتا ہے۔ دل کی رفتار اور فشار خون پر اثر انداز ہونے والی ادویات پولی گراف کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ بعض غیر قانونی ڈرگز جیسا کہ ہیروئن بھی اثر ڈالتی ہیں۔ کیفین، نکوٹین، الرجی کی ادویات، سونے میں معاون ادویات اور کھانسی کی ادویات بھی ٹیسٹ کو متاثر کرتی ہیں۔
عام طور پر یہ ٹیسٹ بے رحم مجرموں پر نہیں آزمایا جاتا کیونکہ ان میں اپنا ردعمل کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بعض طبی حالتوں میں یہ ٹیسٹ نہیں کیا جاتا، مثلاً مرگی، اعصابی ضرر، امراض قلب، فالج یا بہت زیادہ تھکاوٹ میں یہ ٹیسٹ نہیں لینا چاہیے۔
کمزور ذہن افراد کو یہ ٹیسٹ نہیں لینا چاہیے۔ عموماً حاملہ خواتین کا یہ ٹیسٹ نہیں لیا جاتا، اور لینے کے لیے ڈاکٹر کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔