لاہور: (ویب ڈیسک) کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں سافٹ ویئر برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور ایکسپورٹ میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2019 ء سے لے کر جون 2020 تک پاکستان میں 1.2 ارب ڈالر کی سافٹ ویئر برآمدات رپورٹ ہوئی تھیں جبکہ جولائی سے دسمبر 2020 تک صرف چھ مہینوں میں آئی ٹی سروسز کی برآمدات کا حجم ایک ارب ڈالر تک پہنچ رہا ہے جو کہ گذشتہ مالی سال کی ششماہی کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔
پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر عثمان ناصر نے ایک انٹرویو کو بتایا کہ 6 ماہ میں ایک ارب ڈالر کی سافٹ ویئر برآمدات تو آفیشل چینل سے سٹیٹ بینک کے ذریعے ملک میں آئیں، اس کے علاوہ بہت سی کمپنیاں پیسہ باہر بھی رکھ لیتی ہیں لہٰذا برآمدات کا حجم تو تخمینہ سے بھی زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ کورونا وبا کے دوران جہاں دنیا میں بیشتر ممالک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے وہیں پاکستان کی جانب سے آئی ٹی سروسز کی فراہمی اور برآمدات میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے سربراہ نے کہا کہ عالمی لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً تمام ہی کمپنیوں نے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کہا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ ملازمین کے پاس تو ایسے سافٹ ویئر موجود ہی نہیں جو کہ گھر سے کام کرنے کو سپورٹ کر سکیں، جبکہ کمپنی میں زیر استعمال سافٹ ویئرز دفتر کے حساب سے بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسے میں سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ کی مانگ میں ہوشربا اضافہ ہوا، یہاں تک کہ وہ کمپنیاں جو اب تک تمام تر کام بنا کمپیوٹر اور سافٹ ویئر کی مدد کے انجام دے رہی تھیں، ان کے لیے بھی سافٹ ویئر کو استعمال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ اس صورتحال کو ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن یا کلاؤڈ مائیگریشن کا نام دیا گیا اور تمام ہی کمپنیوں کو اس کی ضرورت پڑی۔
عثمان ناصر کے مطابق ’یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں آئی ٹی سروسز کا انفراسٹرکچر نہایت بہتر ہے، لیکن پھر بھی پاکستان نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران انڈیا سے بہتر گروتھ ریکارڈ کی۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت میں آئی ٹی کا سارا کام مرکزی شہروں میں بڑے بڑے سافٹ ویئر سینٹرز بنا کر ملازمین کو سامنے بٹھا کر ہوتا ہے۔ ان آئی ٹی ٹاورز کے علاوہ کا انفراسٹرکچر اتنا بہتر نہیں تھا، نہ ہی ان کی ہیومن ریسورس دفتر کے علاوہ کام کرنے کے لیے تربیت یافتہ تھی۔ مزید براں، انڈیا میں لاک ڈاؤن بھی نہایت سخت لگا اور تمام تر معمولات زندگی یکسر معطل ہوگئے۔
عثمان ناصر کے خیال میں اس ساری صورتحال میں پاکستان کو فائدہ ہوا کیونکہ سافٹ ویئر اپڈیٹ اور ڈیویلپمنٹ کی عالمی ضرورت پوری کرنے کے لیے کمپنیوں نے آرڈرز پاکستان کو دینا شروع کیے۔ پاکستان میں آئی ٹی پراڈکٹس کی تیاری انڈیا کی نسبت کم قیمت میں ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ انفراسٹرکچر اور افرادی قوت کا سستا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کے ایجنٹس نے نئے آرڈرز اب انڈیا کے بجائے پاکستان کو دینا شروع کر دیے اور یہی سافٹ ویئر برآمدات سے محصولات زر میں اضافے کا سبب بنا۔