لاہور: (محمد ارشد لئیق) کمال ہوگیا، سائنس دانوں نے ایک ایسا روبوٹ بنا لیا ہے جو بڑی تیزی سے گم شدہ چیزوں کے مقام کا تعین کر سکتا ہے اور اس طرح گم شدہ اشیاء دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہیں، یہ روبوٹ بکھری ہوئی چیزوں کے ڈھیر سے گم شدہ اشیاء کو ڈھونڈ کر باہر نکال سکتا ہے۔
میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے ماہرین نے ایک ماڈل تیار کیا ہے جس کے روبوٹک بازو ہیں جس کے ہاتھ پر ایک کیمرہ ہے اور اس کے ساتھ ریڈیو انٹینا فریکویسی ہے، یاد رہے کہ ریڈیو فریکونسی ہر قسم کی سطح پر سفر کر سکتی ہے، مال چوری ہونے سے بچنے کے لئے ایئر لائنز بھی انہیں استعمال کرتی ہیں تاکہ مسافروں کے سامان کی گزر گاہ کا پتہ چل سکے۔
ایم آئی ٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایسے روبوٹس کا ہونا جو بکھری ہوئی چیزوں کے ڈھیر سے نیچے گم شدہ اشیاء کو تلاش کر لے، آج کی صنعت کے لئے نہایت ضروری ہیں، محققین کے مطابق ایک دن ان کا نظام ایک ویئر ہاؤس میں بھی چیزوں کے ڈھیر سے بہت کچھ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگا، کار بنانے والے پلانٹ میں ضروری اجزا نصب بھی کئے جا سکیں گے، اس کے علاوہ ان ضروری اجزا کی شناخت بھی ممکن ہوگی، مزید برآں ایک ضعیف آدمی کی گھر کے کاموں میں مدد بھی کی جاسکتی ہے۔
محققین نے روبوٹ کو سکھانے کے لئے اعصابی نیٹ ورک کو استعمال کیا جس کا مقصد روبوٹ کی رفتار کو بہتر بنانا تھا، مختلف ہدایات کی روشنی میں اس کی تربیت کی جاتی ہے، اس سے ہمارا دماغ بھی بہت کچھ سیکھتا ہے، ہمیں اپنے والدین اور اساتذہ کی طرف سے تحسین کی شکل میں بہت کچھ ملتا ہے، اسی طرح ہمیں کمپیوٹر گیمز بھی ’’انعامات‘‘ دیتی ہیں، سیکھنے میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔
MIT کے ایک اور پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایجنٹ کو غلطیاں کرنے دیتے ہیں یا پھر کوئی کام درست کرنے دیتے ہیں پھر اس کے بعد ہم نیٹ ورک کو سزا دیتے ہیں یا انعام، یہی وہ طریقہ ہے جس سے نیٹ ورک کچھ سیکھتا ہے، آر ایف یوزٹن سسٹم کے لئے پیش کارکردگی ایلگورتھم کو انعام دیا گیا جب اس نے ان حرکات کو محدود کر دیا جو اسے کسی گم شدہ شے کے مقام کا تعین کرنے میں کرنی پڑتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس فاصلے کو بھی محدود کر دیا جو اسے اس چیز کو اٹھانے کیلئے طے کرنا پڑا، جب ایک دفعہ سسٹم درست جگہ کی شناخت کر لیتا ہے تو پھر اعصابی نیٹ ورک آر ایف اور تصویری معلومات کو اکٹھا کر کے استعمال کرتا ہے، اس سے اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ روبوٹک بازو کو کب چیز کو اپنے قابو میں کرنا ہے، یہ نظام گم شدہ چیز کے لیبل کو بھی جانچ لیتا ہے تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اس نے درست شے کو اٹھایا ہے۔
محققین نے اس سسٹم کو کئی بار ٹیسٹ کیا اور ان کے مطابق انہیں 96 فیصد کامیابی ملی، انہوں نے اس سسٹم کے ذریعے ان چیزوں کو ڈھونڈ نکالا جو بکھری ہوئی اشیاء کے ڈھیر کے نیچے چھپی ہوئی تھیں یا جنہیں چھپایا گیا تھا، محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھی جب آپ صرف آر ایف کی پیمائشوں پر انحصار کرتے ہیں تو اس سے یہ ہوتا ہے کہ بیرونی حصوں کی پیمائش ہوتی ہے اور اگر آپ صرف تصویر پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس میں یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ کیمرے سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ لیکن اگر آپ ان دونوں کو اکٹھا کر دیں تو پھر یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو ٹھیک کر دیں گے۔
اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ سسٹم کتنا مضبوط ہے، محققین کو امید ہے کہ مستقبل میں اس نظام کی رفتار بڑھا دی جائے گی تاکہ یہ آسانی سے حرکت کرے، اب یہ ہوتا ہے کہ یہ سسٹم وقتاً فوقتاً پیمائشیں لینے کیلئے رک جاتا ہے، اس کیلئے مناسب یہی ہے کہ اس سسٹم کو وہاں نصب کیا جائے جہاں اشیاء کی پیداوار کے عمل کی رفتار بہت تیز ہو یا پھر اس مقصد کیلئے کسی ویئر ہائوس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
ارشد لئیق سینئرصحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں، ان کے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین ملک کے موقر جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔