لاہور: (ڈاکٹر غافر شہزاد) ادبی حلقوں میں یہ گفتگو وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہے کہ آنے والے وقت میں کمپیوٹر شاعری کرے گا یا نہیں؟۔
ڈاکٹر وحید احمد نے اسی موضوع پر ایک نظم بھی کہی ہے، جو کتاب ’’شفایاں‘‘ کا دیباچہ ہے، انہوں نے اپنی نظم میں انسان کی تخلیقی صلاحیت کو کمپیوٹر سے بہتر ثابت کیا ہے، یہ گفتگو ہمیشہ اس اعتماد کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکے گا؟ اس لئے کہ کمپیوٹر تو صرف وہی کچھ کر سکتا ہے جو اسے کمانڈ دی جاتی ہے، اس کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار دونوں ہی اس کی میموری تک محدود ہیں مگر ’’ مصنوعی ذہانت ‘‘کے بعد کئی شعراء کرام کی سوچ بدل رہی ہے۔
جب سے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) نے تخلیقی حدود میں قدم رکھنا شروع کر دیا ہے، اس وقت کمپیوٹر کی مدد سے تیار کیا جانے والا روبوٹ انسانی جسم میں نہایت ہی پیچیدہ قسم کے آپریشن سو فیصد کامیابی کے ساتھ کرنے کی اہلیت حاصل کر چکا ہے۔
ایک مؤرخ، پروفیسر یوال نواح حراری نے اپنی بیسٹ سیلر کتاب میں آنے والے وقت میں کمپیوٹر کے فعال اور تخلیقی کردار کی نشاندہی کی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمپیوٹر کی مدد سے اب صرف ’’دو جمع دو چار‘‘ اور ’’جواب درست ہے‘‘ تک ہی معاملات نہیں نمٹائے جائیں گے، پروفیسر حراری اس کیلئے Algorithm کی اصطلاح استعمال کرتا ہے، یہ اصطلاح پہلی بار تیرہویں صدی کے وسط میں الخوارزمی نے استعمال کی تھی، ہر بار نئے عقدے کو حل کرنے کیلئے جو عمل (پراسس) اختیار کیا جاتا ہے، اس کے کئی ابعاد بنتے ہیں اور اس میں کچھ نہ کچھ نیا ہو جاتا ہے۔
پروفیسر حراری کا یہ بھی خیال ہے کہ کمپیوٹر کی مدد سے ہمیں جسم میں پوشیدہ کسی بھی خطرناک بیماری کا اس کے آغاز ہی میں علم ہو جائے گا اور اس بیماری یا کینسر کا بروقت علاج انسانی زندگی کو عذاب اور اذیت سے محفوظ رکھ پائے گا۔
یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب انسان کے جسم کا مکمل ڈیٹا کسی بڑے فعال کمپیوٹر میں محفوظ ہوگا اور ماہرین کی رسائی اس ڈیٹا تک ممکن ہوگی، پروفیسر حراری خاص طور پر فیس بک کی مثال دیتے ہیں کہ جب کوئی بھی شخص فیس بک پر Interact کر رہا ہوتا ہے تو فیس بک اس شخص کا سارا ڈیٹا محفوظ کر رہا ہوتا ہے جو اس شخص کے تشخص اور انفرادی پہچان کا سبب بنتا ہے۔
یہ بات اس لیے بھی درست لگتی ہے کہ جب آپ فیس بک کی طرف سے پیش کردہ کسی ایسی پیشکش پر کلک کرتے ہیں جو آپ کی شخصیت کے حوالے سے قیاس آرائی کرتی ہے تو بعض اوقات رزلٹ حیران کن ہوتے ہیں، آپ اپنی شخصیت کے اس جوہر کو یوں سامنے پا کر ششدر رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں، فیس بک اکاؤنٹ کی اس پیشکش کو میرے بارے میں یہ کیسے معلوم ہوگیا؟
اگر آپ کمپیوٹر اور اس کے استعمال سے شناسا ہیں تو اس کی اس مصنوعی ذہانت کی اہلیت کو سمجھنے میں آپ کو زیادہ دشواری نہیں ہونی چاہئے، دراصل ہوتا یوں ہے کہ جب آپ فیس بک اکاؤنٹ میں اپنے دوستوں کی ایک فہرست بناتے ہیں تو آپ دراصل ایک ایسی کمیونٹی تشکیل دیتے ہیں جس کے ارکان کسی نہ کسی سطح پر، اشتراکات کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، اُن کی سرگرمیاں اور پسند نا پسند، ذوق جمالیات، سیاسی یا سماجی معاملات میں کہیں نہ کہیں اشتراکات ہوتے ہیں، جن کا تجزیہ کر لینا فیس بک کے ڈیٹا بینک کیلئے نہایت معمولی نوعیت کا کام ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ اگر آپ شاعر ہیں تو آپ کے فیس بک اکاؤنٹ میں اکثریت شاعروں اور باذوق ناظرین کی ہوگی۔ شعر کہنا، اسے اپ لوڈ کرنا، اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا، اس تنقیدی نشست میں حصہ لینا جو شعرا کے گروپ اکثر برپا کرتے رہتے ہیں، یہ تمام سرگرمیاں فیس بک کے ڈیٹا بینک میں آپ کے ایسے تمام کلک محفوظ کرتے رہتے ہیں، اگر ایک ایسا ڈیٹا بینک بنا دیا جائے جس میں اردو شاعری کی تمام بحور، اوزان، زحاف، ردیف قافیے، موضوعات کے تحت اشعار محفوظ کر دیئے گئے ہوں تو کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت کیلئے آپ کی پسند نا پسند اور ذوق جمالیات کے مطابق شاعری کرنا ناممکنات میں سے نہیں ہو گا۔
آپ کے منتخب موضوع پر ممکنہ مصرعے کمپیوٹر آپ کے سامنے وزن اور بحر میں لا رکھے گا، آپ نے اس میں سے بہتر منتخب کرنا ہوگا اور اس میں جو بہترین ہوگا، اس کی جانب بھی کمپیوٹر اشارہ کرے گا، اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اس میں سے کونسا مصرع آپ رکھتے ہیں اور باقی قلم زد کر دیتے ہیں۔
وزیر آغا نے تو پہلے ہی ہماری کلاسیکی شاعری کے موضوعات کی درجہ بندی ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ میں کر دی تھی، اس وقت لگتا تھا کہ جیسے یہ کوئی میکانکی کام ہے مگر حقیقت میں وہ درجہ بندی درست تھی جس سے ثقہ بند نقادوں نے بھی اختلاف کی جرأت نہیں کی۔
ایک بڑے اسکیل پر زبان کی ایسی تمام معلومات کمپیوٹر کے ڈیٹا بینک میں محفوظ کر دی جائیں جو آپ کے فیس بک اکاؤنٹ سے انسلاک رکھتا ہو تو آپ کے مزاج کے مطابق کمپیوٹر کی ایپ (Application) کی مدد سے شاعری کرنا اور وہ بھی ایسی کہ جس میں آپ کا ذوق جمالیات اور زندگی کے بارے میں نقطہ نظر بھی جھلکتا ہو، کوئی ناممکنات میں سے نہیں ہے۔
پروفیسر حراری اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آنے والے وقت میں ڈاکٹر، تجزیہ کار اور وکیل کا کردار کمپیوٹر سنبھال لے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ تخلیق شعر کمپیوٹر نہ کر سکے۔
ڈاکٹر غافر شہزاد شاعر، ادیب اور ماہر تعمیرات ہیں، ان کی مختلف موضوعات پر 15 کتب شائع ہو چکی ہیں۔