میساچوسٹس: (ویب ڈیسک) ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا مسئلہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے انقلاب کے بعد سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
ایک زمانے میں خواتین کی ڈیجیٹل تغیر شدہ تصاویر اور ویڈیوز عام طور پر انٹرنیٹ کے تاریک کونوں ہوتی تھیں لیکن اب جب کہ جنریٹیو اے آئی ٹولز جیسے کہ Midjourney، Stable Diffusion اور DALL-E عام لوگوں کی رسائی میں ہیں، خواتین کی نامناسب جعلی ویڈیوز یا تصاویر بنانا اور اسے پھیلانا مزید آسان ہوگیا ہے۔
ٹیک ماہرین کے مطابق آن لائن ڈیپ فیک ویڈیوز میں سے 90 فیصد سے زیادہ فحش پر مبنی ہوتی ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہر رومن چودھری نے کہا کہ اگرچہ گوگل، یوٹیوب اور میٹا پلیٹ فارمز نے اپنی پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے اور اپنے تخلیق کاروں اور مشتہرین کو اے آئی سے تیار کردہ تمام مواد کو لیبل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری خواتین پر عائد ہوتی جنہیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور اگر کوئی اپنے خلاف نامناسب مواد دیکھیں تو فوراً ایکشن لیں۔
امریکا کی جانب سے دیئے گئے حالیہ ایگزیکٹو آرڈر اے آئی کے تیار کردہ جعلی تصاویر/ ویڈیوز کے خطرات کو دور کرنے میں توجہ دیتا ہے جبکہ یورپی یونین کا مجوزہ اے آئی ایکٹ ٹیکنالوجی میں زیادہ شفافیت پر زور دیتا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکہ اور برطانیہ سمیت 18 ممالک نے وسیع پیمانے پر عوام کو اے آئ کے غلط استعمال سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کا مقصد اس کے غلط استعمال بشمول جعلی تصاویر یا ویڈیوز کو روکنا ہے۔