کیلیفورنیا: (ویب ڈیسک) ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار کسی دور دراز ستارے کے گرد سیاروں کی تشکیل کا مشاہدہ کیا ہے، جس سے ہمارے اپنے نظامِ شمسی کی پیدائش کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ نیا سیاروی نظام ایک نو عمر ستارے HOPS-315 کے گرد بن رہا ہے، جو ہمارے سورج سے مشابہ ہے اور زمین سے 1300 نوری سال دور اورائین نیبولا میں واقع ہے۔
نو عمر ستارے گیس اور گرد و غبار کے بھاری دائروں میں گھرے ہوتے ہیں جنہیں پروٹوپلانیٹری ڈِسک کہا جاتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سیارے بنتے ہیں، ان گھومتی ہوئی ڈِسکوں کے اندر سلیکون مونو آکسائیڈ پر مشتمل قلمی معدنیات جمع ہونے لگتی ہیں۔
یہ عمل بڑھتے بڑھتے کلو میٹر سائز کے ’پلانیٹسملز‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو ایک دن مکمل سیارے بن جاتے ہیں۔
ہمارے نظام شمسی میں وہ قلمی معدنیات جو زمین اور مشتری جیسے سیاروں کی ابتدا بنی تھیں، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قدیم شہابی پتھروں میں قید تھیں۔
اب ماہرین فلکیات نے نئی تحقیق میں کہا ہے کہ HOPS-315 کے گرد موجود ڈِسک میں یہ گرم معدنیات ٹھوس شکل اختیار کرنا شروع کر رہی ہیں، یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیقی مطالعے کی مرکزی مصنفہ میلیسا میک کلور (لیڈن یونیورسٹی، نیدرلینڈز) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ ہم نے سورج کے علاوہ کسی اور ستارے کے گرد سیارے کی تشکیل کے بالکل ابتدائی لمحے کی نشاندہی کی ہے۔
ان معدنیات کو سب سے پہلے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے دیکھا، پھر ماہرین نے چلی میں واقع یورپین سدرن آبزرویٹری کے ایٹاکاما لارج ملی میٹر/سب ملی میٹر ایرے (ALMA) ٹیلی سکوپ کا استعمال کر کے معلوم کیا کہ یہ کیمیائی سگنل کہاں سے آ رہے ہیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ یہ معدنیات ڈِسک کے ایک چھوٹے حصے میں موجود ہیں، جو ہمارے سورج کے گرد موجود شہابی پٹی جیسا ہے، یہ ماہرین کو وہ عمل براہِ راست دیکھنے کا موقع دے گا جس سے گزر کر کبھی ہمارا اپنا سیارہ (زمین) تشکیل پایا تھا۔
تحقیقی مطالعے کی شریک مصنفہ میرل وانٹ ہوف (پوردو یونیورسٹی، امریکا) نے کہا کہ ہم ایک ایسے نظام کو دیکھ رہے ہیں جو بالکل ویسا ہے جیسا ہمارا نظامِ شمسی اپنی تشکیل کے آغاز میں دکھائی دیتا تھا۔