دنیا کے تین قدیم تجارتی راستے

Last Updated On 06 May,2018 05:45 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) تجارتی راستے زمانہ قدیم سے پیداوار کے مقام سے کاروبار کی جگہ تک مال لے جانے کا وسیلہ رہے ہیں۔ کم یاب اجناس جو مخصوص علاقوں ہی میں دستیاب ہوتی تھیں، جیساکہ نمک اور مسالہ جات، نے تجارتی نیٹ ورکس کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ لیکن جب یہ راستے تشکیل پا گئے تو ان سے ثقافتی تبادلے بھی ہوئے۔ مذہب، خیالات، علم اور بعض اوقات بیکٹیریا ایک سے دوسرے خطے تک پہنچے۔ آئیے چند اہم قدیم راستوں کا جائزہ لیں۔

شاہراہِ ریشم:

شاہراہِ ریشم سب سے معروف قدیم تجارتی راستہ ہے جس نے چین اور روم جیسی اپنے وقت کی بڑی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے جوڑا۔ چین سے سلطنت روم کو ریشم کی تجارت پہلی صدی قبل مسیح میں شروع ہوئی۔ اس کے بدلے میں یورپ سے اون، چاندی اور سونا آتا تھا۔ سامان کے ساتھ شاہراہِ ریشم علم، ٹیکنالوجی، مذہب اور فن کے تبادلے کا بھی سبب بنی۔ اس تجارتی راستے میں کئی مراکز قائم تھے ۔ مثال کے طور پر سمرقند جو اب ازبکستان کا حصہ ہے، علم و دانش کے تبادلے کا بھی مرکز بن گیا۔ شاہراہِ ریشم کا آغاز چین میں ژی آن سے ہوتا تھا۔ یہ عظیم دیوار چین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پامیر کے پہاڑوں کو عبور کر کے افغانستان پہنچتی اور پھر لیوانٹ (مشرقی بحیرہ روم، جس میں اب قبرص، مصر، عراق، اردن، لبنان، فلسطین اور ترکی شامل ہیں۔) جاتی۔ 4000 میل کا فاصلہ کسی ایک گروہ کے لیے طے کرنا ممکن نہ تھا اس لیے زیادہ تر ایک حصے تک سفر کرتے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سلطنت روم کے زوال کے بعد شاہراہ ریشم غیر محفوظ ہو گئی اور تیرہویں صدی تک اس کا استعمال نہ ہوا۔ تب منگولوں نے اس شاہراہ کی تجدید کی۔ تیرہویں صدی میں اطالوی سیاح مارکو پولو نے شاہراہ ریشم پر سفر کیا۔ وہ ان اولین یورپیوں میں سے تھا جنہوں نے چین کی سیاحت کی۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے طاعون کا بیکٹیریا اسی راستے سے پھیلا تھا۔

گرم مسالوں کا راستہ:

مسالوں کو مشرق سے مغرب تک پہنچانے والا راستہ سمندر سے ہو کر جاتا تھا۔ یورپ میں مرچ، لونگ، دار چینی اور جائفل کی بہت مانگ تھی۔ پندرہویں صدی میں مشرقی تجارتی راستوں پر شمالی افریقی اور عرب مڈل مینوں کا کنٹرول تھا، جس کی وجہ سے یہ مسالہ جات یورپ میں بہت کم یاب اور مہنگے تھے۔ پندرہویں سے سترہویں صدی تک جب مختلف خطوں کی دریافتوں کو عروج حاصل ہوا، اور بحری ٹیکنالوجی نے ترقی کی، تو طویل سفر کرنا نسبتاً آسان ہوا۔ تب یورپیوں نے انڈونیشیا، چین اور جاپان سے براہِ راست تجارتی تعلقات قائم کیے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ تیز رفتار کشتیوں کی تعمیر اور نئی سرزمین تلاش کرنے کی حوصلہ افزائی مسالہ جات کی تجارت نے کی اور مشرق اور مغرب کے درمیان نئے سفارتی تعلقات کو نمو ملی۔ ولندیزیوں اور انگریزوں نے خاص طور پر ایسٹ انڈیز میں مسالہ جات پر کنٹرول پا کر بہت منافع کمایا۔ یہ وہ علاقہ ہے جواب انڈونیشیا میں شامل ہے۔ تب یہ لونگ اور جائفل کا ذریعہ تھے۔اس تجارتی راستے کو تحفظ دینے کے لیے جنگیں ہوئیں اور دوسرے علاقوں پر قبضے کیے گئے ۔

بخُور راستہ:

یہ راستہ بنیادی طور پر بخور اور ایک خاص گوند کی تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا جس کی پیداوار صرف جزیرہ نما عرب کے جنوب میں (جہاں اب یمن اور اومان ہیں) میں ہوتی تھی۔ ان دونوں اشیا کو درختوں سے لیا جاتااور دھوپ میں سکھایا جاتا۔ انہیں مذہبی و ثقافتی تقریبات میں جلایا جاتا جس سے خوشبو پیدا ہوتی۔ اونٹوں کو انسان نے ایک ہزار قبل مسیح میں سدھا لیاتھا۔ اس کی وجہ سے عرب اس قابل ہوئے کہ وہ ان قیمتی اشیا کو بحیرہ روم تک لے جائیں جہاں اہم تجارتی مراکز قائم تھے۔ یہ اشیا رومیوں، یونانیوں اور مصریوں کے لیے بہت اہم تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ رومی بادشاہ نیرو نے پورے سال کی بخور کی فصل کو اپنی محبوبہ کے جنازے پر جلایا تھا۔ اپنے عروج کے دور میں تین ہزار ٹن بخور کی سالانہ تجارت ہوتی تھی۔ ایک رومی تاریخ دان کے مطابق راستہ 62دنوں میں مکمل ہوتا تھا۔

ترجمہ : ر۔ع