ایک گولی امریکا کیلئے ’درد سر‘ بن گئی

Last Updated On 18 October,2019 06:17 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) امریکا میں درد کیلئے استعمال ہونیوالی گولی ’’فینٹائل‘‘ ملک کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا میں استعمال ہونے والی درد کی گولی ’فینٹانل‘ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کی جان لے چکی ہے تاہم اس کے باوجود روک تھام میں امریکی حکومت کوشش کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی۔

امریکا میں فینٹانل سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار فارما انڈسٹری اور ڈاکٹروں کو ٹھہرایا جاتا ہے جو نقصانات سے واقف ہونے کے باوجود اس دوا کی تشہیر کرتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق امریکا میں فینٹانل کا شمار اہم نشہ آوار ادوایات میں ہوتا ہے جو گزشتہ سال 03200 امریکیوں کی اموات کا سبب بنی تھی، جبکہ روزانہ اوسطاً 130 شہری ہلاک ہوتے ہیں۔فینٹانل شدید درد کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے بالخصوص کینسر یا ان مریضوں میں جو زندگی اور موت کی جنگ میں مبتلا ہوں۔ فینٹانل، ’مورفین‘ سے سو گنا زیادہ مؤثر سمجھی جاتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ماہرین کے خیال میں مسئلے کی بنیادی وجہ ڈاکٹروں کا مریضوں کو یہ دوا ضرورت سے زیادہ تجویز کرنا ہے۔ دوا میں موجود نشہ آور اجزا مریضوں کو اس کا عادی بنا دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نشہ آور ادویات کے وسیع استعمال کو 2017 میں ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے اور بہتر علاج کے لیے فنڈ بھی مختص کیے تھے۔

رواں مالی سال میں 945 ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں تاکہ شدید درد سے نمٹنے کا کوئی مؤثر حل تلاش کیا جا سکے۔ فینٹانل کا استعمال امریکہ میں 1960 کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ فینٹانل کی محض 2 ملی گرام کی خوراک بھی موت کا سبب بن سکتی ہے۔

فینٹانل غیر قانونی طور پر بھی بنائی جارہی ہے، اور میکسیکو اور چین سے امریکہ میں سمگل بھی کی جاتی ہے، جو گولی اور پوڈر کی شکل میں دستیاب ہوتی ہے۔ کبھی کبھار اس میں ہیروئین اور کوکین بھی شامل کر دی جاتی ہے۔ چین سے منگوائی گئی ایک کلو فینٹانل 1700 ڈالر میں خریدی جاسکتی ہے جو دس لاکھ گولیاں بنانے کے کام آتی ہے، جس سے لاکھوں میں منافع کمایا جاتا ہے۔

امریکی اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2018 تک 400000 اس دوا کے استعمال سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ فینٹانل سے اموات کو مسئلہ 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا لیکن 2013ء میں اس کا استعمال شدت پکڑ گیا۔ اکثر امریکی ریاستیں ایسی ادویات کی دستیابی پر فارما کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں۔