لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں گاڑی چلانے کے بہت سے لوگ دلداہ ہیں، ہالی ووڈ سمیت دنیا بھر میں اس پر ہزاروں فلمیں بن چکی ہیں، امریکا میں ایک سائنسدان چوہوں کو گاڑیاں چلانے کی تربیت میں دینے میں سرخرو ہو گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’’بی بی سی‘‘ کے مطابق ایسا کرنے سے چوہوں کی سٹریس میں کمی ہوتی ہے رپورٹ تیار کرنے والے یونیورسٹی آف رچمنڈ کے سینئر مصنف کیلی لیمبرٹ کا کہنا ہے کہ تحقیق سے ہمیں نہ صرف سمجھنے میں مدد ملی کہ چوہوں کا دماغ کتنا کام کرتا ہے بلکہ مستقبل میں دماغی بیماریوں کےلیے بغیر ادویات علاج کا طریقے دریافت کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
کیلی لیمبرٹ کا کہنا تھا کہ مجھے کافی وقت سے نیورو پلاسٹی (کسی خاص کیفیت یا چیلنج کے ردعمل پر دماغ میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں) میں دلچسپی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں معلوم کرنا چاہتی تھی کہ قدرتی ماحول میں زندگی گزارنے والے چوہوں میں اور لیبارٹری میں رکھے چوہوں کےمخصوص حالات میں ردعمل پر کتنا فرق ہے۔
خاتون سائنسداں اور ان کی ٹیم نے روبوٹ کار میں پلاسٹک کا ڈبّہ لگا کر اس میں تبدیلی کی۔ کار کے فرش پر ایلومنیم کا ٹکڑا لگا کر اسے ڈرائیور کے لیے مخصوص حصے میں تبدیل کیا گیا۔
تحقیق کے دوران جیسے ہی چوہا کار کے فرش پر لگی ایلومنیم کی پلیٹ پر آیا تو سرکٹ مکمل ہو گیا اور کار نے پہلے سے طے شدہ سمت میں حرکت شروع کر دی۔
شیشے کے ٹکڑے سے ایک چھو ٹی سی جگہ تیار کی گئی جس کے ارد گرد گاڑی چلانے کے لیے 17 چوہوں کو کئی ماہ تک تربیت دی گئی، جس سے ریسرچر کو معلوم ہواکہ چوہوں کو آگے اور پیچیدہ راستوں پر کار چلانے کی تربیت دی جاسکتی ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا کہ نام نہاد قدرتی ماحول میں رکھے گئے چوہوں نے لیبارٹری کے چوہوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی لیکن ان کی کارکردگی بہتر ہونا لیمبرٹ کےلیے حیرت انگیز تھا۔
جن چوہوں پر تحقیق کی گئی تھی ان کا فضلہ جمع کیا گیاتاکہ کورٹی کوسٹیرون اور ڈی ہائیڈرو ایپی اینڈروسٹیرون نامی ہارمونز کا تجزیہ کرکے معلوم کیا جاسکے کہ ان پر کتنا ذہنی دباؤ تھا اور حیران کن طور پر جن چوہوں نے تربیت میں حصّہ لیا وہ بہت پرسکون تھے۔
جن چوہوں نے خود گاڑی چلائی ان کے جسم میں ان چوہوں کے مقابلے میں ڈی ہائیڈرو ایپی اینڈروسٹیرون کی زیادہ مقدار پائی گئی جو اس گاڑی میں محض مسافر تھے جنہیں محقیق نے کنٹرول کیا۔
لیمبرٹ کے مطابق انہیں اس تحقیق یہ اہم بات کا علم ہوا کہ ان طریقوں سے استعمال سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے علاج کے مزید طریقے بنائے جا سکتے ہیں۔