لندن: (ویب ڈیسک) سائنسدان نے ایک معمہ حل کر لیا ہے، جس میں پتہ لگا لیا گیا ہے کہ تتلی کیسے اڑتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق تتلیوں کی پھڑپھڑاتی ہوئی پرواز بہت عرصے سے شاعروں کے لیے واردات قلبی اور سائنسدانوں کے لیے چکرانے کا باعث رہی ہے۔ محققین کو یہ سمجھنے میں مشکل رہی ہے کہ یہ نازک بدن جاندار اپنے بڑے مگر ناکافی پروں کے ساتھ کیسی اڑتا ہے۔
اب ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تتلیاں اپنے پروں کو گولائی دے کر ایک خاص زاویے سے تالی بجانے کے انداز سے آپس میں ٹکراتی ہیں جس سے ہوا پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے ردعمل میں یہ نرم و نازک کیڑا اپنی منزل کی جانب محو سفر رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں 2 ہزار سال پرانے فن پارے دریافت
یہ تحقیق رائل سوسائٹی انٹرفیس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ تتلیوں کو خطرناک شکاریوں سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
جانداروں کی اڑنے والی انواع نے موت سے بچنے کے مختلف طریقے بنائے ہیں۔ بعض کے پر بڑے اور طاقتور ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ تیزی سے خطرے سے دور نکل جاتے ہیں۔ کچھ کیڑے کھانے میں اتنے بدذائقہ ہوتے ہیں کہ شکاری ان پر حملہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ان نازک بدنوں کی مشکل یہ ہے کہ ان کے پر بقیہ جسم کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر بڑے ہوتے ہیں جو پرواز کے قوانین کے اعتبار سے اڑنے کے اہل نہیں ہیں۔
1970 کی دہائی میں محققین نے نظریہ پیش کیا تھا کہ تتلی کے بڑے پر جب اوپر کی جانب آپ میں ٹکراتے ہیں تو تتلی کو اڑنے میں مدد ملتی ہے مگر قدرتی ماحول میں اڑان کے دوران کوئی بھی سائنسدان اس کا عملی مظاہرہ نہیں کروا سکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مُردوں کی آوازیں سننے والے اپنی دنیا میں مگن رہتےہیں: دلچسپ تحقیق
اب سویڈن کے سائنسدانوں نے ایک وِنڈ ٹنل یا ہوائی سرنگ اور ہائی سپیڈ کیمروں کی مدد سے تتلی کے اس مخصوص طرزِ اڑان کی عکس بندی کی ہے۔ سویڈن میں رپورٹ کے شریک مصنف ڈاکٹر پر ہینِنگسن کا کہنا ہے کہ ’پر ایک نہایت دلچسپ انداز میں حرکت کرتے ہیں۔ پروں کے اگلے اور پچھلے حصے مرکزی حصے سے پہلے آپس میں ملتے ہیں جس سے ایک گولائی یا پیالہ نما شکل وجود میں آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں اس طرز عمل سے پروں کے درمیان ہوا قید ہو جاتی ہے اور جب پر مکمل طور پر ملتے ہیں تو یہ ہوا تیزی سے خارج ہو کر تتلی کو آگے دھکیلتی ہے۔
تتلیوں کی پرواز کی سلو موشن ویڈیو بنانے کے علاوہ محققین نے دو چمٹے بھی تیار کیے تاکہ اپنے نظریے کی آزمائش کر سکیں۔ ایک سخت تھا اور دوسرا تتلی کے پروں کی طرح لچکدار۔
محققین کی ٹیم نے دیکھا کہ لچکدار پروں والے چمٹے کو جب وِنڈ ٹنل میں آزمایا گیا تو اس سے ڈرامائی طور پر زیادہ قوت پیدا ہوئی۔ اس سے کارکردگی میں 28 فیصد اضافہ ہوا، جو سائنسدانوں کی نظر میں اڑنے والے جانداروں کے لیے بہت بڑا نمبر ہے۔
سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیالہ نما بڑے پروں کے (تالی بجانے کے انداز میں) پھڑپھڑانے کے عمل نے تتلوں کو اپنی ارتقا کے دوران شکاریوں پر سبقت دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : دادی نے اپنی پوتی کو ’جنم‘ دیدیا
ڈاکٹر پر ہینِنگسن کا کہنا ہے کہ اگر آپ تتلی ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پھرتی سے اڑ سکتی ہے، تو اس سے آپ کو یقینی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ ایک قوی اور مخصوص دباؤ ہے کیونکہ معاملہ زندگی اور موت کا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسا وہ اڑان بھر لینے کے بعد بھی کرتی ہیں، مگر میرے خیال میں اس وقت وہ اپنے پروں کو آپس میں نہیں ملاتیں مگر اڑان بھرتے وقت وہ یقیناً ایسا کرتی ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ ان کی تحقیق زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے۔ بعض ڈرون اور زیر آب مشینوں میں پھڑ پھڑانے کے عمل پر مشتمل پروپلشن سسٹم یا دھکیلنے کا نظام پہلے ہی محدود پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تتلیوں کے اڑنے کا انداز اپنا کر ان مشینوں کی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔