لندن: (ویب ڈیسک) سائنسدانوں نے دلچسپ تحقیق میں دریافت کیا کہ جو لوگ مُردوں کی آوازیں سننے کے دعویدار ہوتے ہیں، ان کی کیفیت عموماً نوجوانی سے ایسی ہوتی ہے اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ صرف مشرق ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے مرحومین کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور وہ اُن سے باتیں بھی کرتے ہیں۔ البتہ، مُردوں کی آوازیں صرف وہی سنتے ہیں جبکہ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو ایسا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ ایسے دعووں کو اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ’’فراڈ‘‘ کہہ کر نظر انداز بھی کردیا جاتا ہے لیکن نفسیاتی اور سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھ کر ہمیں شدید نوعیت کے جذباتی صدمات یا دماغی چوٹ کے بعد پیدا ہونے والی اسی نوعیت کی کیفیات کے بارے میں جاننے میں خاصی مدد ملے گی۔
ڈرہم یونیورسٹی اور نارتھمبریا یونیورسٹی کے ماہرین نے مشترکہ تحقیق کی جس میں سوشل میڈیا سے 143 عام لوگوں کے علاوہ ایسے 65 افراد بھی شامل کیے گئے تھے جو روحانیت پر یقین رکھنے کے علاوہ ذاتی روحانی تجربات کے دعویدار بھی تھے۔
تحقیق کی غرض سے مطالعے کے تمام شرکاء سے تفصیلی سوالنامے بھروائے گئے جن روحوں (مُردوں) کی آوازیں سننے کے بارے میں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔
سوالناموں سے معلوم ہوا کہ روحانی تجربات سے گزرنے کے دعویداروں میں سے 44.6 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ ہی مُردوں کی آوازیں سنتے ہیں۔ ان میں سے بھی 65.1 فیصد نے بتایا کہ آوازیں انہیں اپنے سر کے اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جبکہ 31.7 کو ’’ارواح کی آوازیں‘‘ اپنے اندر کے علاوہ ارد گرد سے آتی ہوئی بھی محسوس ہوتی تھیں۔
عام لوگوں کی نسبت ’’روحانی‘‘ لوگوں میں مافوق الفطرت واقعات اور چیزوں پر یقین نمایاں طور پر زیادہ دیکھا گیا جبکہ انہیں اس کی بھی کوئی خاص پروا نہیں تھی کہ دوسرے لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
علاوہ ازیں، ان میں سے بیشتر افراد نے بتایا کہ انہیں روحوں اور مُردوں کی آوازیں سننے کے اوّلین تجربات نوجوانی میں یعنی اوسطاً 21 سے 22 سال کی عمر میں ہوئے تھے۔
غیبی آوازیں سننے والے لوگ صرف مُردوں کی آوازیں ہی نہیں سنتے بلکہ وہ عام طور پر ایسی غیر معمولی آوازیں بھی سنتے رہتے ہیں جو اگرچہ روحوں یا مُردوں کی تو نہیں ہوتیں (ان افراد کے مطابق) لیکن دوسرے لوگ ان آوازوں کو سن نہیں پاتے۔
ایک اور بات جو ایسے تمام افراد میں قدرِ مشترک کے طور پر دیکھی گئی، وہ یہ تھی کہ جب یہ لوگ کسی سوچ میں غرق ہوجائیں یا کام میں مگن ہوجائیں تو اپنے ارد گرد کی دنیا سے تقریباً بے خبر ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انہیں اپنے اطراف میں موجود چیزوں، سرگرمیوں اور افراد کا احساس نہیں رہتا۔
عام افراد میں سے بھی وہ لوگ جو مافوق الفطرت چیزوں اور مظاہر پر یقین رکھتے تھے، وہ بھی اپنے کام یا سوچ میں مگن ہو کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجانے کا عمومی مزاج رکھنے والے دیکھے گئے۔ البتہ اس یقین کا اُن میں ’فریبِ نظر‘ اور ’فریبِ سماعت‘ کے ساتھ کوئی تعلق سامنے نہیں آسکا۔
ماہرین کے مطابق تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی شخص مُردوں یا ارواح کی آوازیں سننے کا دعوی کرے تو ضروری نہیں کہ وہ مافوق الفطرت پر یقین رکھنے والا بھی ہو۔ اس کے برعکس، روحانیت کی طرف آنے والے بیشتر لوگ پہلے ہی سے ’’مگن مزاج‘‘ اور نوجوانی سے ’’غیبی آوازیں‘‘ سننے والے ہوتے ہیں۔
روحانی عقائد ان کے ایسے ذاتی تجربات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں لہذا وہ ان تصورات کو قبول کرکے، شعوری طور پر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ جو کچھ وہ محسوس کررہے ہیں، اس میں ایک ایسی سچائی پوشیدہ ہے جس کا ادراک دوسروں کو نہیں ہوسکتا۔